Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Tuesday, June 16, 2009

Sha'er Luckhnawi: Charaghan and the Poetic Excellence شاعر لکھنوی - چراغاں اور شعری جمالیات









چراغاں


شاعرؔ لکھنوی٭


چَراغاں اور شعری جمالیات


مارچ 11، 1989 ء

شعر، زبان، لہجے، اور الفاظ کی غنائی تہذیب وترتیب کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ شعر نغمے کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ یہی نغمہ حنیف اخگرؔ کی شاعری کا بچپن ہے۔


ان کی والدہ محترمہ نے جو خانوادۂ سادات کے ایک معزّز علمی گھرانے کی چشم و چراغ اور دینی ومذہبی علوم و افکار سے پوری طرح آگاہ تھیں، حنیف اخگرؔ کی خوش آوازی کو نظرِ بد سے بچانے، اُسے نغمگی کی شائستہ حدود میں رکھنے اور ان کے ابتدائی شعور کو اُجلے پن کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے انہیں نعت سُرائی کی طرف مائل کیا۔ و ہ فرصت کے لمحات میں ان سے محسنؔ کاکوروی اور امیر مینائی کی نعتیں ان کی خوش آوازی کے حوالے سے ایک ایسے وجد کے عالم میں سُنا کرتی تھیں، جسے فردوسِ گوش کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔


حنیف اخگرؔ کے والدِ محترم، قاضی سیّد محمد شریف اثرؔ، کا تعلّق بھی ایک معروف اور ممتاز سیّد گھرانے سے تھا۔ وہ ایک خوش فکر شاعر ہونےکے علاوہ اُس وقت کے مُروّجہ علوم اور آداب و رسوم سے بھی آراستہ و پیراستہ تھے۔ حنیف اخگرؔ نے انہی دونوں بزرگوں سے عربی و فارسی تعلیم کے علاوہ ذہنی اور فکری تربیت بھی حاصل کی۔ اور انہی دونوں کی اجتماعی جدّوجہد نے ان کے مستقبل کی تعمیر میں خشتِ اوّل رکھنے کا کردار اس طرح ادا کیا کہ ان کے ذہنی ارتقاء کی عمارت میں کبھی کوئی کجی لغزش پیدا نہ ہوسکی۔


نعت انسانی طہارتِ فکر اور پاکیزگیء خیال کی معراج ہے۔ ان کی نعت سرائی کے ابتدائی عمل نے رفتہ رفتہ نعت شناسی، اور پھر ادب شناسی کی صلاحیّت عطا کی۔ چنانچہ، جب ہم ان کے شعور کے تدریجی ارتقاء کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ملیح آباد میں ابتدائی درسی تعلیم سے فراغت کے وقت ان کے ذہن میں شعری اظہار کا ایک ایسا سانچہ تیار ہوچکا تھا جس نے آگے بڑھ کر ان کی فکری قامت کے لیے ایک متناسب پیراہن تیّار کیا۔ اس کا ثبوت ہمیں 1945ء میں ان کے ملیح آباد کو خیرباد کہنے، امیرالدولہ اسلامیہ کالج لکھنؤ میں مزید تعلیم کے لیے داخلہ لینے اور کالج کے طرحی ماہانہ مشاعروں میں شرکت اور کامیابی سے مل جاتا ہے۔ اُس وقت ان کی تسبیحِ روز و شب کے دانوں کا شمار ہمیں ان کے

سترھویں17 سال میں قدم رکھنے کا سراغ دیتا ہے۔


۔”چراغاں” میں ان کے تحریر کردہ مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنؤ میں انہوں نے میری غزل سرائی کا سماں وہاں کی مجلسی، ادبی، اور تہذیبی روایات کے حجابوں میں دیکھا تھا۔ اور اُس سے کوئی اثر قبول کیا تھا۔ یہ اظہار یقیناً صداقت پر مبنی ہوگا۔ کیونکہ اُس وقت حنیف صاحب کی شعری پرواز کا دائرہ صرف اپنے کالج کے طرحی مشاعروں تک محدود تھا۔ اُس وقت ادبی و شعری محفلوں میں خوردی اور بزرگی، احترام اور احتیاط کا جو فاصلہ موجود تھا، وہ اسی کا متقاضی تھا۔


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1948 ء تک حنیف اخگرؔ سے میری ملاقات نہیں ہوسکی تھی، کیونکہ میرے لکھنؤ چھوڑنے اور پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا یہی زمانہ ہے۔


غالباً 1964 ء میں کراچی کے کسی مشاعرے میں میرا تعارف حنیف اخگرؔ سے ایک شاعر کی حیثیت سے ہوا تھا۔ اُس وقت ان کی شاعری کی مسیں بھیگ رہی تھیں۔ پھر علی الترتیب 1983ء، اور 1985ء کے لگ بھگ کراچی کی منتخب شعری محفلوں میں ان کا کلام سننے اور انہیں قریب سے دیکھنے کے کئی لمحے مُیسّر آئے۔ اُس وقت اُن کی غزلوں مِیں الفاظ و نغمہ کا جو رچاؤ، فکری جدوجہد کا جو پھیلاؤ اور اسلوبِ اظہار کا جو مجموعی آہنگ میرے سامنے آیا تھا، اُس میں مستقبل کی چمک دمک کے خوبصورت رنگ طلوع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ اپنی معاشی زندگی کی تعمیر کے سلسلے میں “یو این او” [امریکہ] پہنچ چکے تھے۔


پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ حنیف اخگرؔ کی ذہنی تربیت، فکری نشوونما، اور مستقبل کی تعمیر میں ان کے والدین کی توجّہ، محبّت، ایثار و قربانی، اور تحمّل کا ناقابلِ فراموش حصّہ ہے۔ ان دونوں کرداروں نے ان کی زندگی اور شاعری میں وہ راہِ مستقیم تراشی جس پر یہ آج تک گامزن ہیں۔ اِن [دونوں]میں اُن کی والدہ کا کردار اگرچہ زیادہ عرصے تک ان کی رہنمائی نہ کرسکا، اور دسمبر 1947ء میں لکھنؤ میں ان کے زمانہ طالب علمی ہی میں غروب ہوگیا، تاہم اس کردار کی جو چھاپ ان کے ذہن و فکر پر قائم ہوئی، وہ آج بھی ان کے حافظے میں تروتازہ ہے۔ دوسرا کردار ان کے والدِ محترم کا ہے، جس نے ایک مدّت تک شجرِ سایہ دار کی طرح انہیں ہر لحظہ زندگی کی کڑی دھوپ سے بچائے رکھا۔ اس مثالی کردار نے ان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں جس پامردی، انا، عزّتِ نفس، مُجاہدانہ ریاضت ، اور قلندرانہ قناعت کےساتھ حصّہ لیا، اُس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ خدا اور رسول پر ان کے ایمان و ایقان نے اہلِ خاندان کو ہرکٹھن مرحلے سے بڑی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ گزارنے کی بے مثل صلاحیّت عطا کی تھی۔ روشنیء دیدہ سے محروم ہوجانے کے باوصف اُن کی باطنی بینائی نے ہر اندیشہء دور و دراز میں اپنے کنبے کو ثابت قدمی کا جو معیار عطا کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کردار بھی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔


خدا رحمت کند ایں بندگانِ پاک طینت را


جب ہم اس روشنی میں حنیف اخگرؔ کےافکار و عقائد، تہذیب و ترتیب، کردار و عمل، اور ان کے معاشی و معاشرتی دائرہ کار کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی کے ایک ایک گوشے پر ان دونوں مثالی شخصیتوں کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے نیویارک کے زمانہء قیام میں متعدد بار حنیف اخگرؔ کے رُندھے ہوئے لہجے اور چھلکتی آنکھوں نے ان دونوں فقید المثال ہستیوں سے ان کی لازوال ذہنی وابستگی کا راز مجھ پر منکشف کیا ہے۔


اولاد کے لیے والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی دنیوی عظمت اور دینی سعادت نہیں۔ اگر حنیف اخگرؔ خدمت کے اس منصب و معیار پر پورے اترے تو اُس میں اُس شریف لہو کے تقاضے کو بھی دخل تھا، جو ان کی رگوں میں موجزن ہے۔ لیکن اس ضمن میں ان کی خاتونِ خانہ نے ان کے والدِ محترم کی نگہداشت، دیکھ بھال، آرام و آسائش، اور خدمت کی جو اعلیٰ مثال پیش کی، اور اطاعت و فرمانبرداری کا جو معیار تراشا، وہ حنیف اخگرؔ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعریف و توصیف کا مستحق ہے۔


یہ حالات و واقعات محض زیبِ داستاں کے طور پر ضبطِ تحریر میں نہیں لائے جارہے ہیں۔ بلکہ ان کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کی جڑیں ان کی زندگی اور شاعری میں دوُر دُور تک پیوست ہیں۔ اور قارئین کرام انہی کی مدد سے ان کی شعری جمالیات کی نبض پر ہاتھ رکھ سکتے ہیں۔


حنیف اخگرؔ اپنی شاعری کے بارے میں کسی نئے “فلسفے” کے مُدّعی ہیں نہ کسی خاص جدّت کے دعوے دار، ان کے شعری طرزِ اظہار کا آہنگ ان کی ذات کی درویشانہ انا سے مِل کرجو تأثر پیش کرتا ہے وہ بزمِ سُخن میں شریک تمام ادبی سماعتوں کو تازہ دم ضرور کردیتا ہے۔ ان کے شاعرانہ اظہار میں جو قوسِ قُز َح جھلکتی ہے اس کا رشتہ کہیں بھی شعری جمالیات سے منقطع نہیں ہونے پاتا۔


۔”چراغاں” کی تمام غزلیں اسی کیفیت کی آئینہ دار نظر آتی ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے ایک آدھ ایسی غزل ملے گی، جو شعری جمالیات کے اس دائرے میں نہ آتی ہو۔ ان کے طرزِ اظہار کی لےَ میں جذبے کی پاکیزگی، احساس کی طہارت، قافیے اور ردیف کا صوتی آہنگ، مصرعوں کی رامش گرانہ ساخت اور لفظوں کی حنا بندی کا جو عمل کارفرما نظر آتا ہے، وہ مشاعروں میں سامعین کے ذہنی غسل کا سامان فراہم کرتا ہے۔


ان کی ظاہری شکل و شباہت پر بیک نظر “مولوی” ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ لیکن اس ظاہری سطح کے نیچے ایک مومن، زندہ دل، اور عاشقِ پاکباز کے اتّحاد کی ایک خوبصورت علامت ہے۔ اور اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے کلام میں عاشقانہ طرحداری تو ہے، مولویانہ ریا کاری نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ ان کی فِکر میں جمال پرستی تو ہے، لذّت پرستی نہیں۔


حنیف صاحب اپنی ذات میں بڑی باغ و بہار اور مرنجاں مرنج کیفیات کے مالک ہیں۔ مجمعء یاراں میں ان کی چُست فقرہ بازی اور حاضر جوابی کا سماں دیکھنے سے تعلّق رکھتا ہے۔ دوستوں کے سنجیدہ جُملوں کو حسِ مزاح کی مدد سے کہیں کا کہیں پہنچادینا ان کی لفظیات کا کمال ہے۔ لیکن یہ لفظوں کا استعمال پھولوں کی چھڑی کی طرح کرتےہیں، قصاب کی چھُری کی طرح نہیں۔ ان کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں، دشمنوں کے دشمن نہیں۔ اس ضمن میں ان کا یہ شعر توجّہ کے قابل ہے: ۔


دشمنوں پر اگر وقت کوئی پڑا

دوستوں کی طرح پیش آئیں گے ہم


ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ حنیف اخگرؔ کے ذہن میں جمال پرستی کی بنیاد ان کی نعت سُرائی کے ابتدائی حوالے کی مرہونِ منّت ہے۔ سرکارِ ختمی مرتبتؐ کے ذکر و فکر سے ان کی والہانہ عقیدت و نسبت نے متعدّد بار انہیں حریمِ کعبہ اور حرمِ نبوی کی زیارت کا شرف بخشا ہے۔ اور بار بار بطحیٰ و طیبہ کے طواف نے ان کی خاکِ وجود پر کیمیا کی مہر لگائی ہے۔ کسی خوش بیان شاعر سے نعت سنتے وقت جو آنسو ان کی آنکھوں سے جاری ہوجاتے ہیں، وہ غالباً اُن موتیوں کی یاد دلاتے ہیں، جو ان کی ماں حنیف اخگرؔ کی زبانِ خوش الحان سے نعت سنتے وقت بارگاہِ رحمت اللعالمین میں بطور نذرانہ پیش کیا کرتی تھیں۔


ایک نسل دوسری نسل کے افکار و اعمال اور تاریخی تسلسل کی روشنی میں اپنی طرزِ معاشرت، اپنی تہذیب، اور اپنے ادب کا ذہنی سانچہ تیّار کرتی ہے۔ شعر و ادب کی دنیا میں ایک نسل نے دوسری نسل سے بہت حاصل کیا ہے۔ چراغ سے چراغ جلانے کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ شعراء نے ہر دور میں اپنے سے پہلے شعراء سے اور اپنے معاصرین کے افکار و خیال سے اپنے اپنے طرزِ اظہار کے مطابق استفادہ کیا ہے، جس کی مثالیں ہمیں ہر عہد کے شعراء کے کلام میں ملتی ہیں۔


غالبؔ نے اپنے دور سے قبل کے اور اپنے دور کے شعراء کے فکروخیال کا مطالعہ کرکے انہیں اظہار کے درجہ ء کمال تک پہنچایا۔ وقت کا تسلسل ارتقاء کی جتنی منزلوں سے گزرتا جاتا ہے، گزشتہ افکار کو نئے نئے انداز سے ترقّی دینے کا عمل بھی اسی کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ حنیف اخگرؔ اور ان کےمعاصرین بھی اس عمل سے اپنے انفرادی لہجے پیدا کرنے کی جدّوجہد میں مصروف ہیں۔ حنیف اخگرؔ نے بھی چراغ سے چراغ جلائے ہیں، لیکن ایک خلّاق کی طرح۔ نقّال کی طرح نہیں۔ وہ اس نُکتے سے واقف ہیں کہ اگر اس عمل سے فکری جہت کو کوئی ترقّی یافتہ صورتِ اظہار نہیں ملتی تو اس کی حیثیت چبائے ہوئے نوالوں کو دوبارہ چبانے سے زیادہ اہمیّت نہیں رکھتی۔


حنیف اخگرؔ نے اس عمل میں میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، حسرتؔ، خواجہ میردردؔ، اور اصغرؔ سے ذہنی استفادہ تو ضرور کیا ہے، لیکن اپنی شاعرانہ انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے۔ ہمیں تو ان کے طرزِ اظہار میں خواجہ میر دردؔ، جگرؔ، اور اصغرؔ کی پرچھائیاں ان کے مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اور یہ بھی عجیب اتّفاق ہے کہ فروری 1988ء میں بھارت میں منعقد ہونے والی اردو عالمی کانفرنس میں انہیں خواجہ میردردؔ ایوارڈ ہی سے نوازا گیا تھا۔


حنیف اخگرؔ کی شاعری روایت کے اُس تسلسل کا حصّہ ہے جو ولی دکّنی سے چل کر آج کے دور تک پہنچی ہے۔ وہ روایت کے اس مدرسہ ء فکر سے تعلّق رکھتے ہیں جو روایت کو تروتازگی بخشنے، اسے شگفتہ کرنے، مزید آگے بڑھانے، اور اُس میں رنگا رنگ راستے تراشنے پر یقین رکھتا ہے ~~~ روایت سے بغاوت پر نہیں۔ بغاوت ان کے ہاں ایک گھناؤنے جرم کی علامت ہے، ترقّی پسندی کی نہیں۔ وہ جنسی محرومیوں کو ادب کا نام دینے والے اشتہاری مجرموں اور باہری ملکوں سے درآمد کردہ نظریات و عقائد پر ترقّی پسندی کی مُہر لگانے والے ادب ناشناسوں اور موقع پرستوں کے افکار کو بازیچہء اطفال سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ حنیف اخگرؔ جانتے ہیں کہ ذہانت کا جوہر انسان کی اپنی سرشت میں ہوتا ہے، جو بے اختیار طرزِ اظہار میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ جوہر کسی گروہی داؤ پیچ یا ترقّی پسند تحریک میں شمولیت کے حوالے سے ظہور میں نہیں آتا۔ درجے پاس کرلینے سے مدارج حاصل نہیں ہوجایا کرتے۔ خیال کے دردِ زہ پر جدیدیت کی چھاپ اور الفاظ کی زچگی پر خلّاقی کا لیبل لگا کر تجدّد کا تمغہ تو حاصل کیا جاسکتا ہے، ادب شناسی اور غزل شناسی کا عرفان نہیں ہوسکتا۔


حنیف اخگرؔ نے اپنی شاعرانہ مُسافت میں سیاسی، سماجی، معاشی، اور معاشرتی ماحول کی سنگینی اور حالات کی سفّاکیوں کے پہ درپہ تھپیڑوں کا بڑا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ہے۔ انہیں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور اس کی نیرنگیوں کو اپنے زیرِ لب تبسّم سے دبانے کی تربیت اپنے والدین سے ملی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُن کے کلام میں شکست خوردگی، برہمی، جھنجھلاہٹ، اور غصّے کے بجائے ایک شائستہ اور متوازن طرزِ خُرام کی سی کیفیت ملتی ہے۔ وہ حالات کے بین الاقوامی اتار چڑھاؤ، سیاسی، سماجی، اور مجلسی روّیوں کی شکست و ریخت، تہذیبی اور ادبی سانچوں کی ٹوٹ پھوٹ، جذبوں کی داخلی و خارجی کروٹوں، عذابِ ہجرت کے ذائقوں اور احساس پر پتھراؤ کے مسلسل اور جان لیوا عمل سے بڑے سکون و اطمینان، رکھ رکھاؤ، اور تعقّل و تحمّل کے ساتھ گزرے ہیں۔ اور یہی مرحلے مطالعے، مشاہدے، اور تجربے کے حوالے سے ان کی شاعری میں اُتر کر نئے نئے فکری اُفق تراشنے کا سبب بن گئے ہیں۔


حنیف اخگرؔ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ان کی جمالیاتی تہوں اور پرتوں کو اُلٹنا ضروری ہے۔ ان کے ہاں جذبے کا شفّاف پن، اظہار کی پاکیزگی، اور خیال کی نُدرت آپس میں حل ہوکر ایک ایسی وحدت میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جس وحدت کی اساس خالصتہً ان

کے باطنی وجدان اور شعری جمالیات پر ہے۔


ذیل کے اشعار میں یہ تمام رنگ و نیرنگ گوناگوں اظہاری پیرہن کے ساتھ پڑھنے والوں کی توجّہ کا دامن کھینچتے ہیں؂


خلوتِ جاں میں ترا درد بسانا چاہے

دل سمندر میں بھی دیوار اٹھانا چاہے


تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مُروّت ہے ہم نے مانا

مگر نہ اتنی تسلّیاں دو کہ دم نکل جائے آدمی کا


ان کی ادائے عاشقانہ کا یہ کمال ملاحظہ ہو کہ وہ محبوب کے جورِ مسلسل کا شِکوَہ بھی مدح سرائی کے انداز میں کرتے ہیں؂


کسی کے جورِ مسلسل کا فیض ہے اخگرؔ

وگرنہ درد ہمارے سُخن میں کتنا تھا


وہ اپنے شعری محبوب کے سراپا پر بار بار نگاہیں ڈالتے ہیں۔ کبھی تو “زلف شکن در شکن” کا ذکر ہوتا ہے، کبھی “لبِ کم سُخن” کا۔ ان کی دیدہ وری کبھی “فروغِ رنگِ بہاراں” اور وفورِ خندۂ گُل” سے گزرتی ہے، اور کبھی “ادائے سادگیء پیرہن” پر آکر ٹھہر جاتی ہے؂



ہر اہتمامِ پئے برہمئ نظمِ حیات

کسی کی زُلفِ شکن درشکن میں کتنا تھا

فروغِ رنگِ بہاراں وفورِ خندۂ گُل

ادائے سادگی ءپیرہن میں کتنا تھا


حنیف اخگرؔ کے ذہن میں جمال پرستی کا اتنا شدید رچاؤ ہے کہ وہ گہرے سے گہرے سیاسی موضوع کو بھی دائرۂ جمال میں لاکر اظہار کے لیے نئے آہنگ سے پوری طرح ہمکنار کردیتے ہیں؂


یہ بھی ہو شاید کوئی کارِ بہار

شاخ پر اب ایک پتّا بھی نہیں



قفس کا عیشِ اذیّت اٹھائے کون بھلا

اگر ہوائے چمن سب کو راس آنے لگے


یہاں عیشِ اذیّت کی ذہنی اختراع کتنی خوبصورتی کی حامل ہے؂


پل بھر نہ بجلیوں کے مقابل ٹھہر سکے

اتنا بھی کم سواد مِرا آشیاں کہاں


ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوقِ اسیری

ہر پاؤں میں زنجیر ہے میں دیکھ رہا ہوں


لوگ ملنے کو چلےآتے ہیں دیوانے سے

شہر کا ایک تعلّق تو ہے ویرانے سے


کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے

مُرتّب اس طرح آئینِ مے خانہ نہیں ہوتا


شعری جمالیات کے اس آئینہ خانے میں متعدد ایسے چہرے شعر کی صورت چراغاں کے صفحات پر نظر آتے ہیں، جو ادب میں اپنا ایک انفرادی رنگ رکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں؂


جب بھی اُس زلفِ پریشاں کی ہوا آتی ہے

ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نِکل جاتے ہیں


ساکت ہَوا ہے جتنا تجھے دیکھنے کے بعد

اتنا تو آئنہ کبھی حیراں نہیں رہا


ہو نہ ہو بھر رہا ہے زِخمِ جگر

رنگ اشکوں میں اب نہیں آتا


ہائے بے مائیگی دل کہ مِری آنکھوں سے

ہوگئے اشک رواں، خون رواں ہونا تھا


آئینے میں ہے فقط آپ کا عکس

آئینہ آپ کی صورت تو نہیں


ہر قدم پر تیرا جلوہ دیکھنے کے واسطے

چشمِ حیرت کو نیا آئینہ خانہ چاہیے


یہ کیا کم ہے کہ اُس کی انجمن میں

چراغوں کی طرح شامل رہے ہم


دیکھیے رُسوا نہ ہوجائے کہیں کارِ جنوں

اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے


۔”چراغاں” کی غزلوں کے مجموعے میں ہمیں جو بات سب سے زیادہ متأثر کرتی ہے، وہ ہے شعری معیار کا حیرت انگیز توازن۔ حنیف اخگرؔ نے اپنی فکری ریاضت سے یہ توازن اس طرح برقرار رکھا ہے کہ کوئی غزل بھی معیار کی اس سطح سے نیچے نہیں آنے پاتی۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے، جس کی بناء پر چراغاں کی غزلوں میں “مقام جنبشِ ابرو” کے امکانات مشکل ہی سے نکالے جاسکتے ہیں۔

۔”چراغاں” میں طرزِ اظہار کےنو بہ نو سلسلے بھی نظر آتے ہیں، اورجمال و رنگ کے نئے نئے آئینہ خانے بھی۔ خیال آرائی کے طلسم کدے بھی دکھائی دیتے ہیں، اور معانی آفرینی کے سیکڑوں جہانِ تازہ بھی۔


اس جمالیاتی جائزے کی روشنی میں، ہم بحیثیتِ مجموعی “چراغاں” کو حنیف اخگرؔ کی شعری شناخت کا ایک خوب صورت پیمانہ کہہ سکتے ہیں۔

* * *

٭حضرت "حسن پاشا شاعرؔ لکھنوی" کا انتقال ستمبر 22, 1989ء کو کراچی میں ہوا۔


حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

* * *


No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com