Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Tuesday, June 16, 2009

پروفیسر ملک زادہ منظور احمد - لکھنئو ۔۔ تاثرات




چَراغاں


پروفیسر ملک زادہ منظور احمد


لکھنؤ


تاءثرات


فروری12, 1989ء


اس بات پر اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں ہے کہ اردو غزل صدیوں کا سفر طے کرکے نئی جہتوں اور نئے امکانات سے آشنا ہوچکی ہے۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا بنیادی مزاج حُسن و عِشق، ناز ونیاز، ہجر و وصال، اور شوق و انتظار کے موضوعات سے معَنوَن و منسوب ہے۔ بنیادی موضوعات کی یہی موجِ تہہ نشیں ہے جو تغزّل کا روپ اختیار کرکے اس صنفِ سُخن کو اردو شاعری کی آبرو بنائے ہوئے ہے، اور جو فنکار اس راز کو سمجھ جاتا ہے، اور فنّی التزامات

کے ساتھ اس کو برت دیتاہے وہ خود آبروئے غزل بن جاتا ہے۔


جناب سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کی تشکیلِ فکر چونکہ ملیح آباد اور لکھنؤ ہی میں ہوئی ہے، اس لیے وہ دبستانِ لکھنؤ کے اُن تمام محاسن سے خاطر خواہ واقف ہیں، جو مُدّتوں کی ریاضت نے اس شہر کے ساتھ وابستہ کردی ہیں۔ بندشِ الفاظ کے نگینے جَڑنا، صنائع و بدائع کے التزامات کے ساتھ مُرصّع سازی کا حق ادا کرنا، اوزان و بحور پر فنکارانہ گرفت رکھنا، اور حُسن و عشق کی ہم آہنگی میں زندگی کے جو صحت مند عناصر مضمر ہیں، ان کا شارح اور ترجمان بن جانا ، جناب اخگرؔ کی شاعرانہ فتوحات کے روشن امتیازات ہیں۔ میں نے ان کا کلام جَستہ جَستہ پڑھا ہے۔ آپ اُن کے اشعار دیکھیے، آپ خود اِس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ روایت کے صنم کدوں کا نُور اور اس کے مقدّس آتش خانوں کی آنچ انکے جذبات و احساسات کو جب شعر کے پیکر میں ڈھالتی ہے تو روایتی موضوعات بھی تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی سعادت ہے جس پر جس قدر بھی فخر کیا جائے کم ہے۔۔؂


کافر ہزار سہی، مگر اِس کو کیا کہیں

ہم پر وہ مہرباں ہے مسلمان کی طرح


اس قدر پھیلا تمنّا کا حصار

دل میں اب تیری تمنّا بھی نہیں


نگاہِ جلوہ طلب کا بھرم نہ کھُل جائے

وہ بے نقاب کہیں سامنے نہ آنے لگے


جب بھی اُس زُلفِ پریشاں کی ہواآتی ہے

ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں


آئنے میں ہے فقط آپ کا عکس

آئنہ آپ کی صورت تو نہیں


ہر قدم پر تیرا جلوہ دیکھنے کے واسطے

چشمِ حیرت کو نیا آئینہ خانہ چاہیے


یہ کیا کم ہے کہ اُس کی انجمن میں

چَراغوں کی طرح شامل رہے ہم


ہر اہتمام پئے برہمیء نظمِ حیات

کسی کی زُلفِ شکن درشکن میں کتنا تھا


خِلوَتِ جاں میں ترا درد بسانا چاہے

دل سمندر میں بھی دیوار اُٹھانا چاہے


ان اشعار میں روایت کا خون ضرور گردش کررہا ہے۔ مگر پیرایہء اظہار میں جو شِگُفتَگی اور تازگی ہے، اُس پر بھی ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔


حُسن و عِشق کے موضوعات کے علاوہ اخگرؔ صاحب نے غزل کی ریزہ خیالی سے فائدہ اُٹھا کر کچھ ایسے اشعار بھی کہے ہیں جن میں بصائر اور تامّلات کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ہمارے جذبات میں مدّوجزر نہیں پیدا کرتے، بلکہ اُسی کے ساتھ ساتھ اُن کے افکار کی کرنیں ہمارے ذہن و دماغ کو بھی مُنوّر کرتی ہیں۔ سنجیدہ مسائل کو غزل کے نازک آبگینے میں اس خوبصورت انداز سے ڈھالنا کہ فکر کی جَوت سے فن کا پیمانہ بھی جگمگانے لگے، جناب اخگرؔ کی نمایاں خصوصیّت ہے۔


دیکھو ہماری سَمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی

سچّائیوں کی آخری پہچان کی طرح


یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوانِ رنگ و بو میں

ہیں جمع سب مہر وماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا


دیکھیں اب اس سے جام بنے یا کسی کا دل

مٹّی تِری زمیں کی کفِ کوزہ گر میں ہے


ہم سےکیوں دارورسن پوچھ رہے ہیں اخگرؔ

بزمِ جاناں سے اٹھو گے تو کِدھر جاؤ گے


وہ ترکِ آرزو نہ سہی، آرزو سہی

کوئی دِیا تو خلوتِ دل میں جلا رہے


یہ بھی ہو شاید کوئی کارِ بہار

شاخ پر اب ایک پتّا بھی نہیں


ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوقِ اسیری

ہر پاؤں میں زنجیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں


لوگ ملنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے

شہر کا ایک تعلّق تو ہے دیوانے سے


یہ اور اسی طرح کے نجانے کتنے اشعار جو چَراغاں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، اس بات کا اشارہ ہیں کہ جناب اخگرؔ صرف اپنے جذبات کی شدّت اور اپنے سانسوں کی گرمی سے اپنے اشعار کی تخلیق نہیں کرتے، بلکہ فکرونظر سے کام لے کر انکشافِ ذات و کائنات کے ساتھ ساتھ بصیرت و آگہی کے بھی بہت سے پہلو پیدا کرلینے کا فن بھی جانتے ہیں۔


مجموعی طور پر زیرِ نظر مجموعہء کلام حسن و عشق کے موضوعات کے ساتھ ساتھ، فن اور فکر، بصیرت اور آگہی کی ایسی شمعوں سے فروزاں ہے جن کی روشنی اہلِ دل اور اہلِ نظر دونوں تک پہنچتی ہے۔


دورِ حاضر کی تنقید شاید اپنے منصب کا حق خاطر خواہ نہ ادا کرسکے، اگر وہ اُن رشتوں کی نشاندہی بعد کی نسلوں کےکلام میں نہ کرسکے، جن کی نمود جناب اخگرؔ کے کلام میں روایت کے حوالے سے ہوئی ہے۔ مجھے صرف امّید ہی نہیں بلکہ یقینِ کامل ہے کہ اُن کا مجموعہء کلام ہمارے ادبی حلقوں میں اعتبار حاصل کرے گا۔ ایک ایسےدور میں جب اُردو اپنے پُرانے مرکز سے آگے بڑھ کر بین الاقوامی سطح پر اپنی جمہوریت کو وسیع کررہی ہو، اُن شعراء کے کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے اپنے خُونِ جگر سے غیر اُردو ممالک میں چَراغاں کیا ہے، اور تشنگانِ شعروادب کو اپنے کلام سےسیراب کیا ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تأمّل نہیں کہ امریکا کے اندر جنابِ اخگرؔ زبان و ادب کی جو خدمت کررہے ہیں وہ مثالی ہے۔


* * *


No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com