سیّدابوالخیرکشفی
صدرشعبہء اردو
جامعہ کراچی
سیّدمحمّدحنیف اخگرؔ روشنیوں کے شہر نیویارک میں رہتے ہیں۔ لیکن اُن کی زندگی اُس شہر کی بیرونی اور خارجی روشنیوں سے روشن نہیں، بلکہ اُس تہذیبی اور ثقافتی مِشعل سے جگمگ ہے، جسے غزل کہتے ہیں۔ غزل ہمارے جذباتی اظہار اور ذہنی نظامِ اقدار کا دوسرا نام ہے۔
اخگرؔ صاحب کی غزل میں کلاسیکی روّیے اور روایات کے ساتھ شخصی احساس، ذاتی فکر، فنّی ریاض، اور لفظی دروبست کے نقوش موجود ہیں۔ یہی عناصر اُن کی شاعری کو قابلِ توجّہ بناتے ہیں
غنیمِ ہوش سہی میرِ انجمن لیکن
کسی کو ہوش ہی اُس انجمن میں کتنا تھا
پہلے مصرعہِ کی سجاوٹ میں شخصی سلیقہ اور مطالعہ دونوں موجود ہیں۔ اسی طرح جگرؔ کی زمین، “ دل گیا، رونقِ حیات گئی” میں انہوں نے اپنی انفرادیت کا اظہار کیا ہے، اور بہت اچھّے شعر کہے ہیں
آگئے وہ رگِ گلو سے قریب
جستجوئے صفات و ذات گئی
جناب اخگرؔ کے اس شعر سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کائناتِ رنگ وبو سے آگے، مابعدالطبیعات اور صفات و ذات کی دنیا بھی ان کے دائرہء فن میں شامل ہے۔
نئی دنیا، امریکہ میں اس توانا شعری آواز سے اُردو کلچر کی نمائندگی ہورہی ہے۔ اب یہ آواز ہم تک پہنچی ہے، اور یقیناً اس کی پذیرائی کی جائے گی۔
* * *
No comments:
Post a Comment