غمِ ترکِ وفا ہی غم کا پیمانہ نہیں ہوتا
ہرآنسودل کی بے تابی کا افسانہ نہیں ہوتا
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مُرتّب اس طرح آئینِ میخانہ نہیں ہوتا
شناسا ہے دل اس کی ہرادائے بے نیازی سے
وہ بےگانہ بھی ہوکر ہم سے بےگانہ نہیں ہوتا
نقابِ رُخ اُلٹ کر وہ سرِ محفل جوآجائے
تو پھر دیکھیں کہاں تک کوئی دیوانہ نہیں ہوتا
تِری محفل میں ہوں اور پھر بھی دل میں خاک اُڑتی ہے
سُنا یہ تھا کہ آبادی میں ویرانہ نہیں ہوتا
ضروری ہے وفا میں شرطِ آدابِ مُحبّت بھی
جِسے جلنا نہیں آتا، وہ پروانہ نہیں ہوتا
نگاہِ ساقیء رنگیں سے پی لیتے ہیں اے اخگرؔ
اگرحدِّ نظر تک کوئی پیمانہ نہیں ہوتا
* * *
No comments:
Post a Comment