احمد ندیمؔ قاسمی
تقریظ
حنیف اخگرؔ کی غزل میری نظر میں جگر مرادآبادی اور اصغر گونڈوی کی غزل کی توسیع ہے۔ رنگ و آہنگِ تغزّل وہی ہے مگر ان کی غزل کے ایک ایک شعر میں ان کی بھرپور انفرادیت کچھ اس خوبی سے اظہار پاتی ہے کہ شعر کے مفہوم میں آفاق گیر وسعتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
اخگر کی غزل میں حیرت انگیز بے ساختگی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کی بات سادگی سے کہہ دی گئی ہے مگر اس سادگی میں اتنی گمبھیرتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی اتنا جیتا جاگتا عصری شعور ہے کہ یہ غزل اردو کی جدید تر غزل کے جملہ عناصر سے مُزیّن ہوجاتی ہے۔ اس بیدار نگاہی کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس کی باریک سے باریک پرتیں بھی کھلتی محسوس ہوتی ہیں۔
یوں حنیف اخگرؔ کی غزل ظاہر و باطن کی یک جائی کی غزل ہے۔ اور یہ وہ روشن صفت ہے جس نے ان کے پورے کلام کو مُنوّر کررکھا ہے۔
* * *
No comments:
Post a Comment