لُوٹا جو کارواں کو گیا دونوں ہاتھ سے
رہزن کا ہاتھ بھی تھا مگر رہنما کے بعد
ہر جبر اختیار ہے عہدِ وفا کے بعد
پھر بھی وہ کچھ ملول ہے عذرِ حیا کے بعد
الزامِ عزمِ ترکِ وفا تک گراں نہیں
یہ حال اپنے دل کا ہے عہدِ وفا کے بعد
غنچہ وہ میرے دل کا کھلائے تو بات ہے
آئے صبا سے پہلے کہ جائے صبا کے بعد
جز شوق جُبّہَ سائی خیابانِ ذہن میں
کچھ بھی ٹھہر سکا نہ ترے نقشِ پا کے بعد
بے ساختہ لبوں پہ مرے ہر دعا کے ساتھ
آتا ہے ایک نام ہمیشہ خدا کے بعد
لُوٹا جو کارواں کو گیا دونوں ہاتھ سے
رہزن کا ہاتھ بھی تھا مگر رہنما کے بعد
وہ میرے پاس آئے تو پھر لوٹ کر نہ جائے
لب پر نہ آئی کوئی دعا اس دعا کے بعد
اخگرؔ سخن وری پہ تو ان ہی کو ناز ہے
جن کو زباں ملی مرے طرزِ نوا کے بعد
٭
No comments:
Post a Comment