فُقدانِ عُروج رسن و دار نہیں ہے
منصور بہت ہیں، لبِ اظہار نہیں ہے
تیرِ نظر اِس پار سے اُس پار نہیں ہے
دل پھر بھی تڑپنے کا سزاوار نہیں ہے
ہیں ترکِ تمنّا کے ارادے مُتزلزل
توفیقِ تمنّا تو کوئی بار نہیں ہے
وہ کوئی قیامت سی قیامت بھی ہے جس کا
اک فتنہ قامت سے سروکار نہیں ہے
امکانِ مُحبّت میں گرفتار ہے بے شک
وہ دل جو بظاہر دلِ بیمار نہیں ہے
گلکاریِ مِژگاں کا ہُنر کیا کرے اخگرؔ
دامن ہیں بہت، دیدۂ خوں بار نہیں ہے
٭
No comments:
Post a Comment