رہے ہیں عارض و گیسو کے درمیان اخگرؔ
جبھی تو واقفِ ہر پیچ و تاب ہیں ہم لوگ
کوئی جواب نہیں، لاجواب ہیں ہم لوگ
کمالِ عجز ہیں، عزّت مآب ہیں ہم لوگ
مظاہرِ کرم بے حساب ہیں ہم لوگ
کہ صاحبانِ نصیب و نصاب ہیں ہم لوگ
خیالِ خام کسی کا ،نہ خواب ہیں ہم لوگ
پسِ مجاز حقیقت مآب ہیں ہم لوگ
کتابِ زیست کا اک ایسا باب ہیں ہم لوگ
کہ جیسے اپنی جگہ خود کتاب ہیں ہم لوگ
فریب خوردۂ تابِ سراب ہیں ہم لوگ
برائے کشت محبّت ،سحاب ہیں ہم لوگ
حریصِ عفو بچشمِ پُر آب ہیں ہم لوگ
بجا کہ مستحقِ عذاب ہیں ہم لوگ
چمن کے سب گل و گلرخ بھی رقص فرما ہوں
اگر بصورتِ چنگ و رباب ہیں ہم لوگ
ہمیں تو اب بھی ہے امید سرخروئی کی
اگرچہ زیرِ نگاہِ عتاب ہیں ہم لوگ
ہمیں ہیں جانِ بہاراں، ہمیں حریفِ خزاں
کسی کا چہرہ کسی کی نقاب ہیں ہم لوگ
امینِ غیرتِ ساقی ہیں ہم یہ کس نے کہا
“کسی کا جام، کسی کی شراب ہیں ہم لوگ”
رہے ہیں عارض و گیسو کے درمیان اخگرؔ
جبھی تو واقفِ ہر پیچ و تاب ہیں ہم لوگ
٭
No comments:
Post a Comment