دعا کی وہ توفیق دیتا ہے اخگرؔ
جو خود جانتا ہے، میں کیا چاہتا ہوں
ترے قُرب کی اِنتہا چاہتا ہوں
بحدِّ فنا حوصلہ چاہتا ہوں
حُدُودِ شریعت میں محدود رہ کر
اُنہیں بے حد و انتہا چاہتا ہوں
دلِ مضطرب کچھ ٹھہرنے لگا ہے
کوئی عشوۂ دل ربا چاہتا ہوں
بھنور میں ابھی تک، ہے کشتی سلامت
مشیّت سے کچھ مشورہ چاہتا ہوں
دعا کی وہ توفیق دیتا ہے اخگرؔ
جو خود جانتا ہے، میں کیا چاہتا ہوں
٭
No comments:
Post a Comment