وہ آرہے ہیں چمن میں بشوقِ پامالی
یہ بات ہے تو ابھی ہم ٹھکانے لگتے ہیں
ہم ان کو دیکھ کے حیرت میں آنے لگتے ہیں
اُنہیِں کو آئینہ گویا دکھانے لگتے ہیں
وہ جب بھی تیرِ نظر آزمانے لگتے ہیں
ہمار ا دل ہی نشانہ بنانے لگتے ہیں
وفُورِ درد نہیں باعثِ سکون مگر
کمی سے درد کی ہم تلملانے لگتے ہیں
ہم ان کی بزم سے اُٹھّے تو یوں لگے جیسے
غبار اڑ کے سرِ دشت جانے لگتے ہیں
نئے تو زخم بہت دل پہ آئے ہیں لیکن
نئے نئے بھی پرانے پرانے لگتے ہیں
وہ آرہے ہیں چمن میں بشوقِ پامالی
یہ بات ہے تو ابھی ہم ٹھکانے لگتے ہیں
بس ایک لمحۂ تنہائی چاہیے اخگرؔ
اب اس میں دیکھیے کتنے زمانے لگتے ہیں
٭
No comments:
Post a Comment