مہر و مہ و انجم کے طلبگار نہیں ہیں
ہم کہنہ چراغوں کے خریدار نہیں ہیں
مہر و مہ و انجم کے طلبگار نہیں ہیں
ہم کہنہ چراغوں کے خریدار نہیں ہیں
یہ بھی تری معصوم نگاہی کا اثر ہے
مجرم نظر آئے جو خطاوار نہیں ہیں
بے مأ یگیِ دل نے سکھایا یہ سلیقہ
خوں بار ہیں آنکھیں، جو گُہر بار نہیں ہیں
ہم کسبِ ہنر ہی میں ہنر بانٹ رہے ہیں
دریوزہ گرِ چشمِ خریدار نہیں ہیں
کیا باندھتے ہم برہمیِ زلف کے مضمون
اک جنبشِ ابرو کے سزاوار نہیں ہیں
گرویدہ و مشتاقِ خدوخال تو سب ہیں
سب تیری محبّت میں گرفتار نہیں ہیں
خوش فہمیِ آغازِ محبّت میں ہیں اخگرؔ
انجامِ محبّت سے خبردار نہیں ہیں
٭
No comments:
Post a Comment