دار و رسن کی خیر ہو یا رب
اخگرؔ ہے منصور نہیں ہے
حُسن کو جو منظور نہیں ہے
عشق کا وہ دستور نہیں ہے
دوری پر مجبور نہیں ہے
قُرب اُسے منظور نہیں ہے
وہ بہ ادائے کم سُخَنی بھی
نازاں ہے مغرور نہیں ہے
اُس کا قُرب نصیب نہیں جو
دُور بھی رہ کر دُور نہیں ہے
مجبوری ہی مجبوری ہے
کون ہے جو مجبور نہیں ہے
کھوج میں اس کی سرگرداں ہوں
شہ رگ سے جو دور نہیں ہے
دادِ وفا دیں ترکِ جفا تک
آپ سے یہ بھی دور نہیں ہے
دار و رسن کی خیر ہو یا رب
اخگرؔ ہے منصور نہیں ہے
٭
No comments:
Post a Comment