-
پروفیسر مُحسِن احسان
سابق صدر، شعبہء انگریزی، پشاور یونی ورسٹی
پرتوِ شعورِ عشق
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیحآبادی اپنے پہلے مجموعہء حمد و نعت و سلام و مَنقبَت [خُلقِ مُجسّم] کے ساتھ بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہیں۔ انہیں اور ہر مسلمان کو جناب احمدِ مُجتبیٰ محمّدِ مُصطفیٰ کی ذاتِ گرامی سے جو محبّت و وابستگی ہے، اس کا اظہار الفاظ میں مُمکن نہیں۔ یہ عقیدت و محبّت و شیفتگی حاصلِ دین بھی ہے، پیمانۂ ایمان بھی ہے، اور اخلاص و صداقت کا معیار بھی۔ یہ تعلّق جس قدر گہرا اور راسخ ہوتا ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کی معرفت، عقیدۂ توحید میں پُختگی اور ایمان میں ثابت قدمی ثابت ہوتی ہے، کہ یہ نام اہلِ ایمان کو تازہ دم بھی رکھتا ہے، اور یہی محبّت و محبوبیت کا سرچشمہ بھی ہے۔ اقبالؔ نے کہا :۔۔
-
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
روایت ہے کہ جناب ختمی مرتبت ﷺ کے صحابہء کرامؓ میں ایک خاص جماعت شعراء کی تھی۔ آقا و مولا ﷺ کے حکم سے ان حضرات کے لیے منبر لگایا جاتا، جہاں بیٹھ کر یہ حضرات حضورِ اکرمؐ اور حاضرینِ محفل ، صحابہء کرامؓ کو اپنا کلام سناتے۔ یہی نہیں بلکہ رحمت اللعالمینؐ نے ان میں سے بعض صحابہؓ کو صلہء نعت گوئی میں جنّت کا وعدہ [بھی]فرمایا ہے۔
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کی زندگی کی آخری تمنّا دربارِ رسول اکرمؐ میں حاضری اور اسی خاک میں خاک ہوجانے کی ہے، اور اس تمنّا کے کئی اشارے حنیف صاحب نے بارہا اپنی گُفتگُو اور اپنے نعتیہ اشعار میں کئے ہیں۔ مُجھے اعتراف ہے کہ میں باقاعدہ نمازیں ادا نہیں کرتا، لیکن نعت مری بہت بڑی کمزوری یا توانائی ہے۔ یہ میرے لیے تسکینِ قلب اور سکونِ جاں فراہم کرتی ہے۔ اور میں اس سے انتہائی محبّت اور احترام سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
برادرم حنیف اخگرؔ کا یہ کلام میں نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا ہے۔ اس میں والہانہ شیفتگی، اور شدّتِ جذبات کے ساتھ ساتھ آدابِ مدحت سے آگاہی بھی دِکھائی دیتی ہے۔ جو، اُن کے تربیت یافتہ شعورِ عشق کا پرتو ہے۔
یہ نعتیں حُبِّ رسولؐ کے گہرے جذبے سے سرشار ہیں۔ اِن میں روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے کی ساری کیفیات موجود ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ مجموعہء نعت ان کی حیاتِ مادّی کے لیے مژدہء جانفزا، اور نجاتِ اخروی کے لیے وسیلہء قبولیت ہو۔
مُجھ گنہگار کی بُہت سی دعائیں ان کے لیے ہیں۔
٭
-
Sunday, August 30, 2009
پروفیسر محسن احسان: پرتو شعور عشق [ خلق مجسم]۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment