یہ قفل کُنجِ ِ قفس توڑنا تو ہے اک دن
ہنوز اپنے اگر بال و پر نہیں نہ سہی
کوئی ہمارے لیے چشمِ تر نہیں، نہ سہی
ہمارے غم کی کسی کو خبر نہیں، نہ سہی
ہم اپنے گھر کی طرح تو رہے جہاں بھی رہے
جہاں میں اپنا کوئی گھر اگر نہیں، نہ سہی
طوالتِ شبِ وعدہ کو سوچ کر خوش ہیں
شبِ فراق اگر مختصر نہیں، نہ سہی
گداز نغموں سے میرے پگھل گئے پتھر
تمہارے دل پہ مگر کچھ اثر نہیں نہ سہی
یہ قفل کُنجِ ِ قفس توڑنا تو ہے اک دن
ہنوز اپنے اگر بال و پر نہیں نہ سہی
ہمیں تو ان کی مسیحائی پر بھروسہ ہے
نفس کی آمد و شد معتبر نہیں نہ سہی
نظر تو آتا ہے اخگرؔ کہ ان کی نظروں میں
مرا مقام ہے کوئی ،اگر نہیں نہ سہی
٭
No comments:
Post a Comment