اپنی نظروں کو بھی دیوار سمجھتا ہوگا
جو مسافر ترے کوچے سے گزرتا ہوگا
آج ٹھہرا ہے مرا حرفِ وفا قابلِ دار
کل توہی میری وفاؤں کو ترستا ہوگا
ضبط کا حد سے گزرنا بھی ہے اک سیلِ بلا
درد کیا ہوگا اگر حد سے گزرتا ہوگا
اس کی تعریف میں جب کوئی کہی جائے غزل
کچھ نہ کچھ رنگ قصیدے کا جھلکتا ہوگا
کشتہء ضبطِ فغاں نغمہء بے ساز و صدا
اف وہ آنسو جو لہو بن کے ٹپکتا ہوگا
شعر بن کر مرے کاغذ پہ جو آیا ہے لہو
اشک بن کر ترے دامن سے الجھتا ہوگا
ہیں جو لرزاں مہ و انجم کی شعاعیں اخگرؔ
کوئی بے تاب فلک پر بھی تڑپتا ہوگا
٭
No comments:
Post a Comment