عشق میں دل کا یہ منظر دیکھا
آگ میں جیسے سمندر دیکھا
کھوگئے ہم تری آہٹ پاکر
یعنی آواز کو سن کر دیکھا
جس کو سن کر نہ یقیں آئے کبھی
فی زمانہ وہی اکثر دیکھا
نارسائیِ جنوں محکم ہے
ہم نے دیوار میں در کر دیکھا
دل پہ اک نقشِ کفِ پا ابھرا
ایک صحرا میں گلِ تر دیکھا
میں وہ مومن ہوں کہ جس نے پتھر
کبھی چوما کبھی چھو کر دیکھا
ڈوب جانے کا خیال آیا جہاں
وہیں پایاب سمندر دیکھا
بسکہ منسوب تھا اک نام کے ساتھ
مطمئن ہی دلِ اخگرؔ دیکھا
٭
No comments:
Post a Comment