آخر سے گزرتا ہوگا
عشق جب منزلِ آخر سے گزرتا ہوگا
ایک بھی اشک نہ آنکھوں سے ٹپکتا ہوگا
ہم تو جب جانیں کہ جب وقت ہمارا بدلے
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے، بدلتا ہوگا
ہوگا اے دوست یقیناً وہ مرے دلکی طرح
جو دیا رُخ پہ ہواؤں کے بھی جلتا ہوگا
آج ٹھہرایا ہے خود جس نے مجھے قابلِ دار
کل وہی میری وفاؤں کو ترستا ہوگا
ساغرِ چشم میں میکش اسے بھرتے ہوں گے
رنگ جب آپ کے چہرے سے چھلکتا ہوگا
جو نظر اٹھتی ہے بن جاتی ہے اِک موجِ خُمار
دستِ ساقی میں کوئی جام چھلکتا ہوگا
حال اخگرؔ کے تڑپنے کا سُنا جب، تو کہا
اس کی فطرت ہی تڑپنا ہے تڑپتا ہوگا
٭
No comments:
Post a Comment