عیاں ہونا تھا
صورتِ اشک نہ محفل میں عیاں ہونا تھا
درد کو اور نِہاں، اور نِہاں ہونا تھا
سبب اس کا نہ مِرا گریہ کُناں ہونا تھا
ہوگیا راز عیاں، راز عیاں ہونا تھا
ہائے بے مائگیء دل کہ مِری آنکھوں سے
ہوگئے اشک رواں، خون رواں ہونا تھا
رنگ لایا ہے مرا خُوگرِ ایذا ہونا
مہرباں ہے وہ جسے دشمنِ جاں ہونا تھا
دل دہی کی نہ کوئی بات کرو اے یارو
اُس کے کُوچے میں تو بس دل کا زیاں ہونا تھا
راحتِ غم جو نہیں ہے، تو غمِ عشق سہی
کوئی تو جشن سرِ خلوتِ جاں ہونا تھا
ضبط ہی اصل میں شرحِ غمِ جاں ہے اخگرؔ
نہ ہو ا آنکھ سے آنسو جو رواں ہونا تھا
٭
No comments:
Post a Comment