Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Tuesday, July 28, 2009

حنیف اخگر مرحوم بہت اچھے انسان تھے ۔۔۔ جمیل الدین عالی



جمیل الدّین عالؔی


نقارخانے میں

جنگ، کراچی، 26 جولائی 2009 ء


گورنر سندھ سے ملاقات ۔۔

ارض کشائی “ کی اصطلاح۔۔

حنیف اخگر مرحوم بہت اچھے انسان تھے



ہمیشہ کی طرح آج ( جمعہ بتاریخ24/ جولائی 2009ء ) بھی یہ مسئلہ موجود ہے کہ اظہاریہ کیسے یعنی کس عنوان کے ساتھ شروع کیا جائے کیونکہ ہمیشہ کی طرح آج بے حد اور بیشمار عنوانات چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں۔ قومی صورت حال حسب سابق پریشان کن ہے اور ( معذرت کہ ) کوئی ایک یا دو تین ایسے تسلیم شدہ رہنما سامنے نہیں، جو اس صورت حال میں انقلابی تبدیلیاں لا کر پوری قوم کو یکجا کرتے ہوئے عزم و ترقی کی بلندیوں تک لے جاتے ہوئے نظر آئیں، بہرحال
تاب لائے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
ایسی صورت حال میں مجھے گفتگو کیلئے اپنی پہلی ترجیح شعبہٴ ادب نظر آتی ہے، گو یہ شعبہ خود ہزار مضمونوں کا مضمون ہے۔ عام تسلّی کی بات کیلئے یہ بات ضرور ہے کہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود، عام طور پر یہ شعبہ مجموعی طور سے ترقی کر رہا ہے، مقداری بھی اور معیاری بھی۔ افسوس کہ اب تک اسے ہمارے معاشرے نے اپنی اوّل ترجیحات کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔ تقریروں اور گاہے گاہے تحریروں میں اس کا کچھ احترامیہ سا ذکر کر دینا اور بات ہے اور عملی ترجیح اور بات ہے۔ بہرحال یہ قصّہ تو میں چھیڑتا ہی رہتا ہوں۔ اس موقع پر ایک ” غیر ملکی “ اور پرانا واقعہ دہرا دوں، جو اسی اظہاریہ میں چند برس پہلے لکھ چکا ہوں۔
ولیم شیکسپیئر
تقریباً اسّی، نوے برس گزرے برطانیہ میں ایک مرکزی تحقیقاتی ادارے نے ایک مختصر سوال نامہ شائع کیا، جس میں لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ برطانیہ کی پوری تاریخ میں گزرنے والا سب سے بڑا آدمی کسے سمجھتے ہیں۔ جوابوں کی تفصیلات مجھے یاد نہیں، اتنا یاد ہے کہ ان میں سے تقریباً اٹھانوے فیصد نے پوری برطانوی تاریخ کا ” سب سے بڑا آدمی “ ولیم شیکسپیئر کو قرار دیا تھا، جو ہمارے حسابوں محض ایک اچھا شاعر تھا، جب کہ برطانوی تاریخ کے بہت سے شعبوں میں بہت سے، بہت ہی بڑے بڑے آدمی گزر چکے تھے۔ مدبر، فاتحین، مصنف، فنکار۔ ایسے کہ آج تک صرف اپنی قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی نوادر روزگار سمجھے اور کہے جاتے ہیں۔ میں کئی بار انگلستان جا چکا ہوں، جب بھی جاتا ہوں، اگر دو دن سے زیادہ کا قیام ہو تو کیمبرج اور آکسفورڈ ضرور جاتا ہوں۔ اب وہاں کسی سے جان پہچان نہیں، بس کالجوں کی دیواروں کا نظارہ ہی کافی ہوتا ہے کہ یہ دونوں مقامات ہی اعلیٰ ترین علوم و فنون کی علامات لگتے ہیں اور لمحہ بھر میں ان کی تاریخیں سنا دیتے ہیں ( اس فہرست میں دنیا کے چند اور مقامات بھی آتے ہیں اور میں وہاں گیا بھی ہوں، مگر چونکہ سب سے زیادہ سفر انگلستان اور امریکہ کے کئے ہیں، اسلئے ان دو مقامات کی زیارت سب سے زیادہ ہوئی ہے )۔
شعبہٴ ادب کیا؟
مگر خود شعبہٴ ادب کے پچاسیوں بڑے بڑے شعبے ہیں، ان میں سے کسی ایک کا انتخاب بھی مجھ نا چیز کا منصب نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا کیا جائے۔ بس جیسا بھی جی کہے۔ جی یہ کہتا ہے کہ انجمن کی بات کرو۔
اُردو کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار “
انجمن ترقی اُردو اور آرٹس کونسل کے اشتراک سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا، جس کا عنوان تھا ” اُردو کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار “۔ مذاکرہ کی صدارت انجمن ترقی اُردو کے صدر آفتاب احمد خاں نے کی جبکہ مہمان خصوصی معروف سماجی شخصیت اور رکن قومی اسمبلی محترمہ خوش بخت شجاعت تھیں۔ نظامت کا فریضہ انجمن کے اعزازی نائب معتمد کالم نگار، ڈرامہ نویس اور شاعر حسن ظہیر نے انجام دیا۔ مذاکرے ( سیمینار ) میں جن دیگر اہل علم، اہل دانش نے اظہار خیال کیا، ان میں اُردو یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس ڈاکٹر حسن، وقار گل، کراچی یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری امین یوسف، پروفیسر ساجدہ سلیم شامل تھے۔ بوجوہ میں وہاں خود حاضر نہ ہو سکا۔ سنا کہ جلسہ بہت اچھا ہوا۔ مذاکرے کا آغاز حسن ظہیر نے اپنے خطاب سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ انجمن ترقی اُردو نے فیصلہ کیا ہے کہ کتابوں، تحریروں، جلسوں، مذاکروں اور مباحثوں کے ذریعہ انجمن کے اغراض و مقاصد اور اُردو زبان کی مزید ترویج و اشاعت کی تحریک کو عوام الناس تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جامعہ کراچی کے سامنے انجمن کا ایک قطعہ اراضی عرصے سے موجود تھا، جس کی گراؤنڈ بریکنگ کے بعد چہار دیواری کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔ یہ عالی جی نے 1964ء میں معتمد انجمن ہوتے ہی حاصل کر لی تھی۔ 31 مئی 2009ء کو شہر کے ادیبوں، شاعر، اہل علم اور ادب دوستوں کی موجودگی میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، صدر انجمن آفتاب احمد خاں اور دیگر مہمانوں نے کدال چلا کر افتتاح کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انجمن کی پرانی عمارت میں جو بابائے اُردو روڈ پر قائم ہے، جلد ہی تزئین نو کی جائے گی۔
امین یوسف صاحب نے نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل ہمیشہ سے اس تحریک کے ساتھ ہے، لیکن اسے مناسب مواقع نہیں ملتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پھر بھی صحافت اور ادب کے میدان میں نئی نسل پیش پیش ہے۔
ڈاکٹر حسن وقار گل نے اعتراف کیا کہ انجمن کے معاملات میں ان دنوں بہت سی سرگرمیاں نمایاں طور پر محسوس کی جا رہی ہیں، جس کے روح رواں حسن ظہیر صاحب ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ محض کتابوں کی اشاعت ہی اداروں کا کام نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انجمن کے زیر انتظام قائم ہونے والی اُردو یونیورسٹی ( جامعہ اُردو ) بھی اپنا کام عمدگی سے کر رہی ہے اور اُردو کیلئے بزرگوں کے ساتھ نوجوانوں کو بھی مواقع مل رہے ہیں۔
نقاش کاظمی نے کہا کہ انہوں نے اُردو کالج سے گریجویشن کیا تھا، جہاں وہ بزم اُردو کے نائب صدر اور مجلہ ” برگ گل “ کے مدیر تھے۔ برگ گل کا ” سر سید نمبر “ آج بھی ایم اے کے کورس میں شامل ہے۔ کہا گیا کہ کتابوں، مجلوں اورخبر ناموں کی اشاعت ضائع نہیں جاتی۔ جب ہم طالب علم تھے تو آج کے جمیل الدین عالی اس وقت ایک جوان ہی تھے اور وہ لوگ بھی نوجوان تھے، جنہوں نے اُردو کالج کی تعمیر و ترقی کیلئے عطیات اور چندے جمع کئے اور جسے ہم آج ایک جامعہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر ” ارض کشائی “ کے حوالے سے نقاش کاظمی کی نظم بھی سنی گئی۔
مہمان خصوصی خوش بخت شجاعت نے اُردو بولنے اور لکھنے والوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کا تلفظ خراب ہو رہا ہے، جس کیلئے بچوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ بچوں کو انگریزی نما اُردو سے بچانا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم طالب علم تھے، ریڈیو اور ٹی وی پر پروگرام پیش کرتے تھے، تو ہر ادارے میں زبان و بیان، تلفظ لہجہ درست رکھنے کیلئے اساتذہ موجود ہوتے تھے، لیکن آج غلط تلفظات پر سارا ملک اور سارا اُردو دان طبقہ حیرت زدہ ہے۔ کسی طرف سے کوئی اصلاح، تلفظ کی تحریک بھی نظر نہیں آتی۔
صدر مذاکرہ آفتاب احمد خاں نے تمام مقررین کے جذبات و افکار پر خوشی کا اظہار کیا۔
اور کہا کہ انجمن کے افسران و ملازمین کو بھی اس طرز کے پروگراموں میں دلچسپی لینی چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہے، لہٰذا حقیقی طور پر مختلف علاقوں کی اُردو میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے۔ اس سلسلے میں اعتراضات اور نکتہ چینی کے بجائے ” وسیع القلبی “ کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہی اُردو کی کامیابی اور ترقی کا راستہ ہے۔
ارض کشائی
یہ (Ground Breaking) کا اصطلاحی ترجمہ ہے، جو خود اس نظم کے شاعر نقاش کاظمی نے کیا ہے اور مجھے بہت پسند آیا۔ارض کشائی
انجمن ترقی اُردو کی اپنی عمارت کی ارض کشائی کے موقع پراز نقاش کاظمی
ہر ایک اہل قلم بیلچہ اٹھائے ہوئے !
تلاشتا ہے کسی قیمتی دفینے کو !
کدال پکڑے ہوئے دھڑکنوں کو تھامے ہوئے
خوشی سے کھول رہا ہے زمین کے سینے کو
بہت دنوں سے پس انجمن زمین کا دل
دھڑک رہا تھا کہ آؤ مجھے تلاش کرو
زباں کی مانگ میں افشاں کی روشنی بھر دو
صدائے گیسوئے اُردو میں ارتعاش کرو
فصیل جاں کو اٹھاؤ کدال کی زد پر
حیات بھر دو عمارات کی اٹھانوں میں
بناؤ فکر کو بابا کے خواب کی تعبیر
شعور و علم بھرو ریشمی چٹانوں میں
خوشا کہ ” ارض کشائی “ کی صبح آ پہنچی
زمین کی جلوہ نمائی کی صبح آ پہنچی
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے انجمن ترقی اُردو کے وفد کی ملاقات
وفد کے اراکین صدر انجمن آفتاب احمد خاں، معتمد اعزازی جمیل الدین عالی، نائب معتمد منصوبہ حسن ظہیر، مشیر مالیات اظفر رضوی گورنر کو انجمن کی زمین مقابل جامعہ کراچی پر مجوزہ منصوبے کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اور انہوں نے شرکت قبول کر لی۔ تقریب انشاء اللہ اگست کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔ انجمن کے منصوبے میں لائبریری، اشاعتی اور تحقیقی مرکز، اقامت گاہ شامل ہے۔ وفد نے بابائے اُردو روڈ پر انجمن کی عمارت اُردو میوزیم کی تجویز کے بارے میں تفصیل بیان کی جو انہوں نے سراہی۔
مذاکرہ
انجمن ترقی اُردو کے زیر اہتمام بہ اشتراک کمیٹی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں مذاکرہ بعنوان اُردو کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار منعقد ہوا۔ صدارت انجمن آفتاب احمد خاں، مہمان خصوصی خوش بخت شجاعت رکن قومی اسمبلی، اظہار خیال پروفیسر حسن وقار گل، رئیس کلیہ فنون جامعہ اُردو جناب نقاش کاظمی، جناب امین یوسف سیکرٹری کراچی یونین آف جرنلسٹس، پروفیسر ساجدہ سلیم، نظامت اور انتظام حسن ظہیر نائب معتمد انجمن اور رکن گورننگ باڈی آرٹس کونسل آف کراچی۔ موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور شرکاء اور سامعین نے ایسے مذاکروں کو تسلسل کے ساتھ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

حنیف اخگر مرحوم


معروف شاعر حنیف اخگر امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کے ایک اسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ وہ 1928ء میں بھارت کے شہر ملیح آباد میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ انہوں نے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کراچی میں بینک کی ملازمت سے کیا، جب کہ اس دوران انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ بعدازاں وہ سعودی عرب چلے گئے، اس کے بعد امریکہ آ گئے اور اقوام متحدہ میں انٹرنیشنل سروسز میں ملازمت کی۔ انہوں نے ادبی ادارہ حلقہٴ فن و ادب شمالی امریکہ کی بنیاد ڈالی اور یہاں اُردو زبان و ادب کو فروغ دیا۔ ان کے تین مجموعوں میں چراغاں، خیاباں اور نعتیہ شاعری خلق مجسم شامل ہیں۔ وہ ایک سچے عاشق رسول تھے، انہیں عالمی اُردو کانفرنس نئی دہلی کی جانب سے عالمی اُردو ایوارڈ اور ” خواجہ میر درد ایوارڈ “ سے بھی نوازا گیا تھا۔ انہوں نے ایک کتاب ” اسٹاک مارکیٹ ان پاکستان “ بھی لکھی ہے۔
نہ جانے اس وقت ذہن کاہے میں الجھ گیا، آگے کچھ لکھا نہیں جا رہا۔ معذرت اور اجازت !



٭




No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com