Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Monday, July 6, 2009

اختر سعیدی کا مکالمہ جناب حنیف اخگر کے ساتھ 2003ء



حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا

ایک مکالمہ

اختر سعیدی کے ساتھ


* * *

ادب آئینہء ذات ہی نہیں، ایک اسلوبِ حیات بھی ہے

* * *

غزل ایک زندہ صنف ہے، اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے

* * *

امریکا میں اردو بولنے والوں کی نئی نسل ادب سے دور ہے، لیکن اردو سے نابلد نہیں

* * *


جناب سیّد حنیف اخگرؔ کا شمار اس عہد کے ان معتبر ۔ شعراء میں ہوتا ہے، غزل جن کی شناخت ہے بہ قول احمد ندیمؔ قاسمی، “حنیف اخگرؔ کی غزل میری نظر میں اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی کی غزل کی توسیع ہے۔ “ ۔ بلاشبہ، وہ آج بھی اپنے اسلاف کی روایت کو سینے سے لگائے ہیں۔ اُن کی غزل میں جدید آہنگ کے ساتھ صوفیانہ ترنگ بھی موجود ہے۔ انہوں نے غزل کی مُروّجہ روایت کو کسی مقام پر مجروح نہیں ہونے دیا۔ اُن کی شاعری خیال کی لطافت اور جذبے کی تہذیب سے عبارت ہے۔ وہ سُخن گوئی کو اظہارِ جذبات ہی کا نہیں، تہذِیبِ جذبات کا خوب صورت ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے اساتذہ کی زمینوں میں نعتیں لکھ کر اُن سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کی نعتوں میں زندگی رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے جن عاشقانِ اردو نے دیگر ممالک میں اردو زبان وادب کو متعارف کرایا، اُن کی صفِ اوّل میں سیّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا نام رکھا جاسکتا ہے۔ شمالی امریکا میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ وہ 1973ء سے امریکا میں مقیم ہیں۔ اسلام سے محبّت تو ایک فطری عمل ہے، لیکن پاکستان کے ذرّہ ذرّہ سے انہیں عشق ہے۔ اس کی شہادت ان کی نگارشات سے بھی ملتی ہے۔ ان کی زیرِ قیادت نیویارک میں ' حلقہء فن وادب 'گزشتہ کئی برسوں سے سرگرمِ عمل ہے۔ اس حلقے کے تحت بے شمار بین الاقوامی ادبی کانفرنسیں اور مشاعرے منعقد ہوئے۔ پاکستان اور ہندوستان کا کوئی اہم شاعر یا ادیب ایسا نہیں، جو اُن کی دعوت پر امریکا نہ گیا ہو۔ سیّد حنیف اخگرؔ اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔ امریکا کے تمام ادبی حلقے اُن کی ادبی خدمات کے معترف ہیں۔ اِس وقت اُن کا شمار امریکا کے سینیئر ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

* * *

اختر سعیدی: ۔ وہ کیا محرّکات تھے، جنہوں نے آپ کو شعروادب کی طرف راغب کیا؟

حنیف اخگرؔ:۔ جہاں تک میرے شعری ذوق کا تعلّق ہے، اس میں میرے والدین، خصوصاً والدہ محترمہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں بچپن ہی سے خوش آواز تھا، وہ مجھ سےمحسن کاکوروی اور امیر مینائی کی نعتیں بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتی تھیں۔ اس وقت ان کا چہرہ اور ان کی نم آنکھیں حُبِّ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلّم کی مکمّل ترجمان ہوتی تھیں۔ اور مجھے کچھ اس انداز میں شاباش دیا کرتی تھیں کہ میری روح تک خوش ہوجایا کرتی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ مجھے خود شعر کہنے کا تھوڑا بہت شعور آگیا۔ اتّفاق دیکھیے کہ میں نے اپنی شاعری کا آغاز نعت گوئی سے کیا۔ زندگی کی پہلی نعت جو کہی تھی، اس کے دو اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ؂



میں ہوں بُلبُلِ نعت خواں، میری منزل



گلستانِ مکّہ، بہارِ مدینہ






جواباً یہ کہہ دو، پپیہے سے اخگرؔ



دیارِ مدینہ، دیارِ مدینہ



پھر جب میں نے امیرالدّولہ کالج، لکھنئو میں داخلہ لیا تو وہاں کی ادبی و شعری فضا نے بڑی حد تک میری راہ نمائی کی۔ کالج میں اکثر و بیش تر طرحی مشاعروں کا دور چلتا تھا۔ میں بھی ان میں بہ طور ،شاعر شریک ہوتا جس پر مجھے انعامات بھی ملے۔ 1945ء سے 1947ء تک کا دور شعری اور ادبی سرگرمیوں کا بڑا تاریخی دور تھا۔ تحریکِ پاکستان کی مہم بڑے زور و شور سے جاری تھی، اور دن رات لکھنئو کے نوجوان شعراء کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ میرا مستقل قیام نواب راحت سعید خان آف چھتاری کے بنگلے پر تھا، جہاں آئے دن شعر و ادب کی محفلیں جمتی تھیں۔ بلاشبہ لکھنئو کا یہ ماحول میرے لیے استاد کا کردار ادا کررہا تھا۔ اُس وقت لکھنئو کے نوجوان شعرا ء میں شاعر لکھنوی کے جدید رنگِ تغزّل کا بڑا شہرہ تھا۔ لکھنئو کے گلی کوچوں میں ان کی وہ غزل گونج رہی تھی، جس کی ردیف “آنسو” تھی۔ اس کا ایک شعر مجھے آج تک یاد ہے:۔


کردیا دل کو ترے درد نے نازک ایسا

سانس بھی لی تو نکل آئے ہمارے آنسو


میں مشاعروں میں شاعر صاحب کو سننے ضرور جاتا تھا، لیکن ان کی نازک مزاجی کی داستانیں سُن سُن کر ان سے ملاقات کی کبھی جراء ت نہ ہوئی۔ اُس وقت چھوٹوں کا بڑوں کو داد دینا اور ان سے بے تکلّفی سے پیش آنا، خلافِ تہذیب سمجھا جاتا تھا۔ البتّہ اپنے اشعار کو اُن کے طرزِ اظہار کی کسوٹی پر پرکھنے کی تمنّا مجھے شدّت کے ساتھ تھی۔ اپنے یہ احساسات شاعر صاحب پر پر ظاہر کرنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار تھا، جو مجھ میں نہ تھا۔ مگر ان کی غزل میرے لیے معیار کی حیثیت ضرور رکھتی تھی۔ شاعر لکھنوی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1964ء میں ہوئی۔ اُس وقت ان کا شمار پاکستان کے ممتاز غزل کہنے والوں میں ہوتا تھا۔ اس ملاقات میں اخلاص و محبّت کی جو بلندی میں نے شاعر صاحب میں محسوس کی، اس سے ظاہر ہوا کہ ان کے غرورِ شاعرانہ اور نازک مزاجی کی وہ داستانیں جو لکھنئو میں اس وقت مشہور تھیں، اُن کا حقیقت سے کوئی تعلّق نہیں تھا۔ اپنے عہد کے شعراء میں شاعر لکھنوی نے مجھےسےزیادہ متاءثر کیا۔ وہ میرے لیے آئیڈیل شخصیت ہیں۔ میں ان تمام صاحبانِ بصیرت اور اربابِ علم و دانش کا ممنون ِ احسان ہوں، جن سے زندگی کے سفر میں مجھے روشنی ملی۔


اختر سعیدی:۔ پاکستان آنے کے بعد آپ کی ادبی مصروفیات کس نوعیّت کی رہیں؟


حنیف اخگرؔ: ۔ شعری سفر تو جاری تھا، لیکن ادبی سرگرمیاں بہت محدود تھیں۔ کسی مشاعرے کا دعوت نامہ آتا تھا تو چلا جاتا تھا۔ اُس زمانے کے تمام بڑے شعراء سے شناسائی تھی۔ لیکن مشاعرہ پڑھنے کے لیے کسی کی سفارش نہیں کروائی۔ جیسا آج ہوتا ہے۔ کچھ گھریلو ذمہّ داریوں نے بھی مجبور کردیا تھا۔ والدہ کے انتقال کے بعد میری شادی کردی گئی، میرے ساتھ میری تین بہنیں بھی تھیں، فکرِ معاش نے مجھے گھیرا ہوا تھا، اس لیے میں ادبی سرگرمیوں اور مشاعروں سے دور رہا۔ اس دوران تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پھر ایک اسکالر شپ ملی تو لندن چلا گیا، دوسری اسکالرشپ ملی تو امریکا چلا گیا۔ وہاں جانے کے بعد آسودہ زندگی کا آغاز ہوا، جب آسودگی مُیسّر ہو تو ادبی سرگرمیوں کو کیوں نہ جِلا ملے!۔


اختر سعیدی: ۔ شاعری میں آپ نے کن اساتذہ سے استفادہ کیا؟


حنیف اخگرؔ:۔ میں نے تمام اساتذہِ قدیم سے فیض اُٹھایا ہے۔ لیکن مجھے میرؔ، غالبؔ، داغؔ، اصغرؔ، فراقؔ، حسرتؔ، فانیؔ، فیضؔ، جوشؔ، اور شاعرؔ لکھنوی نے بہت زیادہ متاءثر کیا۔ میں نے باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ آٹھ رکنی بحر کیا ہوتی ہے، میں نے یہ تمام علم کتابوں سے سیکھا ہے۔ میں نے غالب کو بہت پڑھا ہے، کِس کِس زاویے سے انہوں نے شعر کہے ہیں، میں تو غالبؔ کو سب سے بڑا استاد مانتا ہوں۔ اصلاح کی غرض سے تو میں نے کسی کے سامنے کبھی اپنی غزل نہیں رکھی، لیکن دوستوں سے مشورہ ضرور کرلیتا ہوں۔ شعر کہنے کے بعد طبیعت بے چین رہتی ہے، کہ کس کو سناؤں۔


اختر سعیدی:۔ کون سی صنفِ سُخن آپ کو زیادہ عزیز ہے؟


یوں تو تمام اصنافِ سُخن پر طبع آزمائی کرتا ہوں، لیکن غزل مجھے زیادہ پسند ہے۔ میں اپنے ذوق کی تسکین کے لیے شعر کہتا ہوں۔ غزل مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ ایک ہی شعر میں پورا مضمون سماجاتا ہے۔ غزل میں بڑی وُسعت ہے۔ اب غزل میں گُل و بُلبُل والی بات نہیں ہے۔ غزل میں آپ کو تصوّف بھی مل جائے گا، مسائلِ زندگی بھی ملیں گے۔ سماجی و معاشرتی مسائل بھی اب تو غزل کا حصّہ بن گئے ہیں۔ غزل ایک زندہ صنف ہے، اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔


اختر سعیدی:۔ آپ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ لیکن کچھ برسوں سے نعت کی طرف زیادہ مائل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے، یا پیرانہ سالی نے اس طرف رجوع کیا؟


حنیف اخگرؔ:۔ میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں نے اپنی شاعری کا آغاز ہی نعت گوئی سے کیا ہے۔ یہ آپ نے درست کہا کہ پیرانہ سالی میں لوگ مذہب کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔لیکن میرامعاملہ اس کے برعکس ہے۔ میں نے نعت نگاری کو ہمیشہ مُقدّم رکھا۔ 'ایک دیا بُجھا ہوا' کی ردیف میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی ایک غزل ہے، یقیناً آپ نے بھی سنی ہوگی۔ اُس زمین میں میری نعت کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:۔


آپؐ کی کیا مثال دوں، آپؐ تو بے مثال ہیں

اور مری مثال کیا، ایک دیا بُجھا ہوا


یہ تو نعت کا ایک شعر ہے،لیکن میری اکثر غزلوں میں آپ کو اس قسم کے اشعار مل جائیں گے۔ نعتیہ شاعری میری والدہ کو بہت پسند تھی، اُن کی پسند میرے مزاج کا حصّہ بن گئی ہے۔ اس لیے میں نعت نگاری کو ہمیشہ اوّلیت دیتا ہوں۔ حال ہی میں 'دبستانِ وارثیہ'، کراچی کی جانب سے میرا نعتیہ مجموعہ 'خُلقِ مُجسّم' شائع ہوا ہے، جس کی ترتیب و تزئین کا فریضہ برادرِ عزیز ماجد خلیل اور عزیزی قمر وارثی نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔ خدا ان دونوں کو شاد و آباد رکھے۔آمین۔


اختر سعیدی:۔ آپ امریکا کب گئے، اور وہاں جاکر آپ کی ادبی شناخت کیسے ہوئی؟


حنیف اخگرؔ:۔ میں 13 جنوری 1973ء کو ایک ملازمت کے سلسلے میں امریکا گیا، اور پھر وہیں کا ہوگیا۔ وہاں لکھنئو کے کچھ لوگ پہلے سے موجود تھے، جن کا علم و ادب سے بھی تعلّق تھا۔ یہی امر ان لوگوں سے میرے تعلّقات کا سبب بنا۔ جن دنوں میں گیا، ان ہی دنوں انڈین سفارت خانہِ میں ایک مشاعرہ ہوا۔ میں بھی سننے پہنچ گیا۔ جو صاحب مشاعرہ پڑھارہے تھے، ان کا نام علی تھا۔ اچانک انہوں نے میرے نام کا اعلان کردیا۔ میں ذہنی طور پر تیّار نہیں تھا، لیکن مجھے تعجّب بھی ہوا، اور خوشی بھی۔ اس طرح نیویارک میں ہم نے پہلا مشاعرہ انڈین سفارت خانے میں پڑھا۔ وہاں میری غزل گوئی اور ترنّم نے بھی خوب رنگ جمایا۔ اس کے بعد مجھے وہاں منعقد ہونے والے پروگراموں میں مدعو کیا جانے لگا۔ 1987ء میں 'حلقہء فن و ادب' کی بنیاد نیویارک میں رکھی۔ اس ادارے کے تحت یومِ اقبال کے حوالے سے ہر سال نومبر میں ایک عالمی مشاعرہ منعقد کرایا جاتا ہے۔ ان مشاعروں میں اب تک پاکستان سے 65 اور بھارت سے 35 شعراء کو بلایا جاچکا ہے۔ وہاں بڑے پیمانے پر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام ہورہا ہے۔ امریکا کی ہر ریاست میں ادبی انجمنیں قائم ہیں، جو اپنے وسائل کے مطابق کام کررہی ہیں۔ ہم نے علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، احمد ندیم قاسمی، جگن ناتھ آزاد، راغب مراد آبادی، اور حمایت علی شاعر جیسے صاحبانِ علم و فضل کے جشن منائے۔ 'حلقہء فن و ادب' میری ذات تک محدود نہیں ہے۔ اس کے چار، پانچ ڈائریکٹر ہیں، میں نے اپنے بچوّں کو بھی اس میں رکھا ہے، تاکہ میرے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے۔ لیکن میں اس ضمن میں زیادہ پُرامّید نہیں ہوں۔ شاید اُنہیں میرے بعد ہوش آئے۔ امریکا میں زیادہ تر لوگ اپنے روزگار اور کاروبار میں منہمک ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچّے انجینیئر بنیں، ڈاکٹربنیں، اردو کی طرف توجّہ بہت کم ہے۔ امیگریشن کا سلسلہ جاری رہا، اور لوگ آتے رہے تو اردو زبان یہاں ختم نہیں ہوگی۔ 1980ء میں 'شمع' بھارتی رسالہ والے یونس دہلوی کی صاحب زادی امریکا آئیں تو ہم نے ان سے کہا کہ امریکا سے ایک اخبار نکلتا ہے، جس کا نام 'کریسنٹ' ہے، آپ اس میں اردو کا ایک صفحہ لکھ دیا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اردو میں نہیں لکھ سکتی۔ غالب کی غزل بھی ہندی میں لکھتی ہوں۔ مجھے تعجّب ہوا کہ اتنے پڑھے لکھے گھرانے کی لڑکی کیا کہہ رہی ہے! لیکن کیا کیا جائے، وہاں نصاب میں اردو نہیں ہے۔ ایک طرف تو یہ ہورہا ہے، دوسری طرف مڈل ایسٹ اور عرب دنیا میں بھِی اردو شاعر پیدا ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر زبیر فاروق کا نام لیا جاسکتا ہے۔


اختر سعیدی:۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ امریکا میں اردو بولنے والوں کی نئی نسل اردو سے نابلد ہے۔ اس بات میں کس حد تک صداقت ہے؟


حنیف اخگرؔ:۔ کسی حد تک یہ بات دُرست ہے۔ لیکن میں اس صورتِ حال سے مایوس نہیں ہوں۔ ہماری ثقافت ابھی تک 'اردو' میں ہے۔ ہم دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اور اپنے گھروں میں بات اردو ہی میں کرتے ہیں، تاکہ بچّوں میں بھی یہ شعورجاگے۔ میں نے ایک بروشر کے ذریعہ وہاں اردو بولنے والی خواتین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچّوں سے اردو میں بات کریں۔ ماں کی گود ہی دراصل وہ پہلا مدرسہ ہے، جہاں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ امریکا میں اردو بولنے والوں کی نئی نسل ادب سے دور ضرور ہے، لیکن اردو سے نابلد نہیں ہے۔ جب تک فلم انڈسٹری قائم رہے گی، اردو ڈرامے بنتے رہیں گے، اچھی اردو بولی اور لکھی جاتی رہے گی۔ پاکستان میں بہت اچھے ڈرامے بن رہے ہیں۔ لیکن کہیں کہیں تلفّظ میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ قائد اعظم کی جگہ 'کائدِ اعظم'، اور قابلِ قبول کی جگہ 'کابلِ کبول' کا استعمال محل نظر ہے۔ اس طرف توجّہ کی ضرورت ہے۔ بہ ہر حال 'ہمارے بعد اندھیرا نہیں، اُجالا ہے'۔ اردو ایک زندہ زبان ہے، اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اردو ہماری قومی زبان ہے، انگریزی تو ایک ضرورت ہے، لیکن اردو ہماری شناخت ہے۔


اختر سعیدی:۔ امریکا کے دیگر شہروں میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کون کون سے ادارے فعّال کردار ادا کررہے ہیں؟


حنیف اخگرؔ:۔ میں حلقہء فن و ادب کے بارے میں تفصیلات بتاچکا ہوں۔ نیویارک میں بہت سے ادارے ہیں، لیکن وکیل انصاری کے حلقہ ء فکر و فن، مسرور جاوید کی عالمی تحریک، اور رئیس وارثی کے اردو مرکز کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ شکاگو میں علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے سربراہ مظفّر الدّین فاروقی ہیں، جب کہ واشنگٹن میں اس ادارے کے کرتا دھرتا، ڈاکٹر عبداللہ ہیں۔ لاس اینجلس میں نیّر جہاں نے اردو مرکز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے، جس کے تحت ہر سال کیس ایک شاعر یا ادیب کو 5 ہزار ڈالر کا انعام دیا جاتا ہے۔ ان کو بڑی اچھی ٹیم ملی ہوئی ہے۔ ڈیٹرائٹ میں حلقہء اربابِ قلم ہے، جس کے سربراہ ڈاکٹر اختر عروج زیدی ہیں۔ ٹورنٹو میں رائٹرز فورم ہے، جس کے روُحِ رواں اشفاق حسین ہیں۔ وہ بہت اچھے مشاعرے منعقد کرتے ہیں۔ انہوں نے فیض احمد فیض پر دو تین کتابیں لکھی ہیں۔ خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔ شکاگو میں ایک نام حامد امروہوی کا ہے ، جو نعت کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ ان کی دو تین کتابیں بھی آچکی ہیں۔ نعتیہ مشاعرے بڑے اہتمام سے کراتے ہیں، نادار بچّوں اور بیواؤں کی مدد کے لیے انہوں نے ایک ادارہ قائم کیا ہوا ہے۔ یہ تمام لوگ اور ادارے بڑی تن دہی اور جاں فشانی کے ساتھ اردو زبان اور ادب کے فروغ کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان تمام اداروں کو لوگوں کا مالی تعاون حاصل ہوتا ہے۔ تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں ان تمام لوگوں اور اداروں کی دل سے قدر کرتا ہوں، جو ادب کی بے لوث خدمت کررہے ہیں۔ نیویارک میں ظفرزیدی میموریل سوسائٹی بھی قائم ہے۔ جس کی چیئر پرسن معروف شاعرہ حمیرا رحمٰن ہیں۔ اس پلیٹ فام سے بھی یادگار پروگرام ہوئے۔ 'اردوٹائمز' کے خلیل الرّحمٰن بھی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ وکیل انصاری، مسرور جاوید، خلیل الّرحمٰن، اور بشیر قمر، یہ چاروں حضرات ادب کے بے لوث سپاہی ہیں۔ یاسین زبیری اور ان کی اہلیہ زرّیں یاسین کی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے حلقہ ء فن و ادب کو فعال اور متحرّک بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ زرّیں یاسین شاعری میں جداگانہ انداز رکھتی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ ان کے شوہر یاسین زبیری مشاعروں کے ایک کامیاب آرگنائزر ہیں۔ قمر علی عبّاسی اور ان کی بیگم نیلوفر عبّاسی بھی امریکا کی ادبی سرگرمیوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ نیلوفر عباسی ادبی پروگراموں کی کمپیئرنگ نہایت خوب صورت انداز میں کرتی ہیں۔ قمر علی عبّاسی کالم نگاری بھی کرتے ہیں، اور ادبی تقریبات کی صدارت بھی۔


جن لوگوں کے نام میرے ذہن میں محفوظ تھے، ان کا میں نے تذکرہ کردیا۔ جو لوگ رہ گئے ہیں، ان سے پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ یہ وہ ادبی منظر نامہ ہے، جس کا میں عینی شاہد ہی نہیں، خود بھی ایک حصّہ ہوں۔


سوانحی خاکہ

سیّد محمّد حنیف

خاندانی نام

1

اخگرؔ ملیح آبادی

قلمی نام

2

۔ 3 ستمبر 1928ء ملیح آباد، برطانوی ہندوستان

تاریخِ پیدائش

3

ایم بی اے، بی کام، ایل ایل بی

تعلیم

4

1945ء

آغازِ شاعری

5


کتابیں


1970ء

اسٹاک مارکیٹ ان پاکستان

1

1989ء

چراغاں، مجموعہ ء غزلیات

2

1992ء

چراغاں، مجموعہ ء غزلیات

3

1997ء

خیاباں، مجموعہ ء غزلیات

4

2003ء

خُلقِ مُجسّم، نعتیہ مجموعہ

5




نوٹ: یہ مکالمہ روزنامہ جنگ، کراچی، کے مڈویک میگزین میں ۱۳ اگست ۲۰۰۳ کو شائع ہوا (جہانِ ادب، صفحہ ۱۴)۔۔


No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com