حنیف اخگر کے انتقال کی خبر مجھ کو امین ترمذی اور ایک منٹ کے بعد ان کے صاحبزادے یوسف نے پہنچائی۔ اس سے پہلے یوسف مجھ کو صرف 20 منٹ پہلے بتا چکا تھا کہ وکیل بھائی صرف اب دعا کی ضرورت ہے۔ میں نے امین ترمذی کو فون کیا اور بتایا کہ مجھے صورتحال سے آگاہ رکھیں۔ 31 مئی 2009ءکو تقریباً ظہر کی اذان سے پہلے حنیف صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے میں اس وقت ورجینیا کے شہر Richmond میں تھا۔ جلدی جلدی جس جس کو فون کر سکتا تھا وہ کیا اور ڈیلاس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ یکم جون کو ڈیلاس پہنچا‘ نماز جنازہ میں شریک ہوا اور ان کے لڑکوں کے ساتھ ساتھ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ میت کو کاندھا دیا۔ صاحبو جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو جانا بھی ہے مگر پتہ نہیں کیوں حنیف صاحب کے جسم کو قبر میں رکھنے اور دفنانے کے بعد بھی یہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ واقعی ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے ہیں۔ یقینی طور پر اس تحریر میں آپ کو حنیف صاحب جن کو میں ”ابو“ کہتا تھا سے ایک جذباتی وابستگی ملے گی اور آج میں دانستہ اس وابستگی کو برقرار رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ان 25 برسوں میں جو پیار اور قربتیں ان سے اور ان کے گھر والوں سے مجھ کو ملی ہیں وہ میری شمالی امریکہ کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ میری بیوی ان کے خاندان سے 1973ءسے وابستہ ہے۔ حنیف صاحب کی سات صاحبزادیاں ہیں اور میری بیوی ان کی صاحبزادی نمبر8 کہلاتی ہیں۔ اس حوالے سے میں اس گھر کا داماد بھی ہوں مگر ان تمام برسوں میں انہوں نے بیٹا کہہ کر پکارا اور بیٹوں سے بڑھ کر پیار دیا۔ وہ اپنی نمازوں میں اسی طرح نام لیکر میرے لئے دعا کرتے تھے جس طرح اپنے سگے بیٹوں کے لئے دعا کرتے تھے۔ جیسا کہ شعرو شاعری اور مشاعروں سے وابستہ افراد بخوبی واقف ہیں کہ ان کے ساتھ میں نے بہت سفر کیا۔ مختلف شہروں میں مشاعروں میں ساتھ رہا لہٰذا ان کو بہت قریب سے جاننے کا موقع بھی ملا۔ میں اس بات کو اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گا کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اکثر ڈرائیونگ میں ہمارے ساتھ عزیزالحق عزیز بھی ہوتے تھے اور سفر حنیف صاحب کی باتوں سے جلدی گزر جاتا تھا۔ حنیف صاحب کی خوبی یہ تھی کہ جو ایک دفعہ ان سے مل گیا وہ ان کا ہو کر رہ گیا۔ ہر بات میں دانائی‘ ہر بات میں مزاح‘ ہر بات میں اپنائیت اور خلوص‘ ذہین بلا کے تھے۔ نام اور چہرے یاد رکھتے تھے۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں تھی۔ مشاعروں میں اکثر میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ وہ صرف ان کو (حنیف صاحب) سننے آئے ہیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ میری تحریر بے ربط ہو رہی ہے اور بھلا کیونکر نہ ہو۔ ایک کالم میں اور کیا لکھا جا سکتا ہے۔ ان کی باتوں کے لئے ایک کتاب بھی کافی نہ ہوگی۔ شمالی امریکہ میں مشاعروں کی داغ بیل بلکہ بین الاقوامی مشاعروں کی داغ بیل کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔ ان کی شخصیت ہم جیسے لوگوں کے لئے شجر سایہ دار تھی۔ میں نے بیس برس کی عمر میں پاکستان چھوڑ کر پہلے کینیڈا میں تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ میں آباد ہوا۔ آج پاکستان کو خیرباد کہے مجھ کو 37 برس ہو چکے ہیں۔ عمر کا زیادہ حصہ یہیں شمالی امریکہ میں گزرا ہے۔ 1985ءمیں والد کے انتقال کے بعد جب واپس آیا تو میں یتیم تھا مگر حنیف صاحب اور ان کے خاندان کی محبت نے کبھی بھی یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ میری شادی کے موقع پر رخصتی کے وقت میرے سسر نے حنیف صاحب کو آگے کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ بھی اس بیٹی کو رخصت کریں گے اور حنیف صاحب نے ہی اپنی بیٹی نمبر8 کو رخصت کرکے میرے حوالے کیا تھا۔ حنیف صاحب اور ان کی بیگم جن کو میں خالہ جان کہتا ہوں انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت اتنی اچھی کی کہ حنیف صاحب کے انتقال کے وقت اور اس کے فوراً بعد ان کے تمام بچے یعنی لڑکے لڑکیاں داماد‘ بہوئیں سب موجود تھے۔ خالہ جان کو اللہ نے ایمان کی اتنی بڑی طاقت دی ہے کہ 60 برسوں کے ساتھ کے باوجود آہ و زاری نہیں کر رہی تھیں۔ خالی خالی آنکھوں سے سب کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ بچوں کو تسلی دے رہی تھیں۔ لڑکیاں ان کو گلے لگائے بیٹھی تھیں۔ ایثار پیکر سے سرشار یہ خاتون ایک مضبوط چٹان کی طرح خاموش تھیں۔ لڑکے لڑکیاں اکثر پرانی باتیں یاد کرکے ہنستے تھے اور ہنستے ہنستے رونے لگتے تھے۔ عجب یہ چار دن حنیف صاحب کے بغیر میں نے ان کے گھر گزارے لگتا تھا کہ ابھی کمرے سے نکل کر آئیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہ رونا دھونا لگا رکھا ہے! گھر مہمانوں سے بھرا ہے کسی نے چائے کے لئے بھی پوچھا۔ یقین کیجئے حنیف صاحب اپنے کمرے سے نکل کر نہیں آئے۔ وہ ہمارے درمیان ہی موجود تھے جو شخص بھی آیا انہی کی باتیں کرتا رہا ہے۔ ٹیلی فون مسلسل بجتا رہا لوگ ہندوستان‘ پاکستان‘ امریکہ‘ یورپ سے فون کرتے رہے۔ تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔ تجہیزو تکفین پیر کے دن تھی مگر تقریباً 200 کے قریب افراد نماز جنازہ میں شریک تھے۔ نیا شہر ہونے کے باوجود ان سے محبت کرنے والوں کا ایک مجمع موجود تھا! ہر شخص ان کی شخصیت کے گن گا رہا تھا۔ تقریباً دو اڑھائی ماہ پہلے جب میں ڈیلاس گیا تھا تو حنیف صاحب ہسپتال میں داخل تھے۔ مرض آخری اسٹیج پر تھا کمزور ہوگئے تھے وزن بھی کم ہوگیا تھا۔ شدید تکلیف میں تھے۔ میں نے پوچھا کیسے ہیں کہنے لگے الحمدللہ اچھا ہوں۔ دوسرے دن طبیعت قدرے بہتر تھی۔ نیویارک اور جاننے والوں کی باتیں کیں۔ کھانا حلق سے نہیں اترتا تھا۔ بڑی مشکل سے کچھ کھاتے تھے۔ ان کی بہو صدف اور بیٹیاں وہیں موجود ہوتی تھیں۔ صرف دہی کھا لیا کرتے تھے مگر اس دن اپنی مرغوب غذا بھنڈی کی فرمائش کردی اور شام کو بڑی رغبت سے کھائی۔ اس تکلیف میں بھی مزاح کا پہلو نکال لیتے تھے۔ ہر وقت ڈاکٹر اور نرسوں سے نوک جھوک رہتی تھی۔ لیٹے لیٹے نماز پڑھتے تھے۔ میں کیا کیا لکھوں‘ کیا کیا بتاﺅں‘ پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ یہ میری جذباتی بے ربط تحریر کو برداشت کر لیجئے۔ شاید اگر آپ ان کی شخصیت سے واقف ہیں تو شاید میری بات کی تائید کرینگے۔ محبت و انکساری ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ Self Made آدمی تھے اور کیسے کیسے لوگوں کی مدد کرتے تھے کہ اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ تمام بچوں کو سپورٹ کیا۔ سات لڑکیوں اور چار لڑکوں کی شادی کی۔ انتقال کے وقت ان کے پوتے پوتی نواسے نواسی کی تعداد 29 ہے اور تین پڑپوتے اور پوتیاں بھی ہیں! شاہ خرچ آدمی تھے اللہ پر توکل بہت تھا۔ اقوام متحدہ کی نوکری (ریٹائرمنٹ) کے بعد بھی نوکریاں کیں۔ کسی پر کبھی بھی بوجھ نہیں بنے۔ اپنے تمام بچوں کو آخری وقت تک گائیڈ کیا اور اتنی اچھی باتیں اور اچھی یادیں چھوڑ گئے ہیں کہ ان کے سہارے جیا جا سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ مدتوں تک یاد کئے جائیں گے۔ مگر جو خلا ادبی میدان اور مشاعروں کی دنیا میں ہوا ہے اس کو پر کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوگا اور جہاں تک یتیمی کا تعلق ہے تو میں ہی کیا پوری اردو غزل اور اردو مشاعرہ یتیم ہو کر رہ گیا ہے۔
http://www.urdutimes.com/columns/47-2009-04-10-01-18-40/9023-2009-06-13-01-57-18 اس کالم پر یہ تبصرہ کیا گیا:۔
سلام
آپ کی خوبصورت تحریر کا شکریہ۔
تاہم، ہمارا خیال ہے کہ یہ چنگاری بجھی نہیں۔ یہ ایک ستارہ بن کر اردو کے ٓآسمان پر درخشاں اور ضوفگن ہے۔
ہاشم سید
رسمی بائیوگرافر، اخگر ملیح آبادی رحمتہ اللہ علیہ
آپ کی خوبصورت تحریر کا شکریہ۔
تاہم، ہمارا خیال ہے کہ یہ چنگاری بجھی نہیں۔ یہ ایک ستارہ بن کر اردو کے ٓآسمان پر درخشاں اور ضوفگن ہے۔
ہاشم سید
رسمی بائیوگرافر، اخگر ملیح آبادی رحمتہ اللہ علیہ
No comments:
Post a Comment