یومِ اقبال اور تقریبِ رونمائی "چراغاں"۔
روزویلٹ ہوٹیل، نیویارک
شاعری، شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ اور شخصیت، شعور و لاشعور کی یکجائی سے عبارت ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرد اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتا ہے، تو اس کا مطلب محض محفل آرائی نہیں، بلکہ تاریخ و تہذیب کے جلو میں ایک شخص کی انفرادیت کا تعیّن بھی ہوتا ہے۔ اس انفرادیت میں جہاں تہذیبی اقدار کی پیکر تراشی نمایاں ہوتی ہے، وہاں تاریخ کا وہ فکری سرمایہ بھی جھلکتا ہے جو عصرِ حاضر اپنے ماضی سے قبول کرتا ہے، اور نہایت احتیاط کے ساتھ مستقبل کے حوالہِ کردیتا ہے۔
جو لوگ مسائلِ حیات سے مجبور ہوکر، یا نئے علوم کی تلاش میں، اپنے مراکزسے دور اجنبی زمینوں میں آباد ہوجاتے ہیں، اُن پر تاریخ و تہذیب کی دوہری ذمہّ داری آن پڑتی ہے۔ وہ صرف میلوں کا فاصلہ ہی طے نہیں کرتے، بلکہ وقت کی گردش میں صدیوں کی جست بھی لگاتے ہیں۔ اس جست کے نتیجہِ میں دو زمانوں کے درمیان جو خلا پیدا ہوتا ہے اُسے پُر کرنا اور لمحہء موجود کو اپنی تاریخ سے جوڑنا، ایک تہذیبی جہاد سے کم نہیں۔
امریکہ اور کینیڈا کے جو اہلِ قلم اس جہاد میں شامل ہیں، اُن میں سیّد محمّدحنیف اخگرؔ کا نام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ حنیف اخگرؔ صاحب کی شخصیت کے ظاہری رُخ سے آپ مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔ ان کے مزاج کی شگفتگی، بذلہ سنجی، دوست داری، اور انسانی صفات کے وہ پہلو جو ایک آدمی کو اپنے ماحول میں مقبول بناتے ہیں، آپ کے سامنے ہیں۔ اس حوالہِ سے میں اُن کے صرف ایک شعر پر اکتفا کروں گا، کہ یہ شعر ان کی شخصیت کے سماجی زاویے کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے
دشمنوں پر اگر وقت کوئی پڑا
دوستوں کی طرح پیش آئیں گے ہم
انسان دوستی کے اس جذبہِ کو میں صوفیانہ فکر کا فیضان سمجھتا ہوں۔ حنیف اخگرؔ کی شاعری میں یہ فیضان جگہ جگہ چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تغزّل ان کی شاعری کی بنیادی خصوصیت ہے۔ چنانچہ معاملاتِ حُسن و عشق اُن کی غزل کا محور نظر آتے ہیں۔ اُن کا محبوب بھی مولانا حسرت موہانی کی طرح اپنا ایک مجازی پیکر رکھتا ہے۔ یہی خصوصیت غالبؔ کی بھی تھی۔ مگر غالبؔ کی غزل میں جب ایسا شعر آتا ہے کہ
زباں پہ بارِ خدایا، یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے
تو یہ شعر مجھے نعتیہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ حنیف اخگرؔ کی غزلوں کے اکثر اشعار اپنی فضا میں عشق کی اسی منزل کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں
اظہار پہ بھاری ہے، خموشی کا تکلّم
حرفوں کی زباں اور ہے، آنکھوں کی زباں اور
مل جائے اُن کا نقشِ کفِ پا اگر کہیں
اک اک لکیر جزوِ رگِ جاں کریں گے ہم
آگئے وہ رگِ گلو کے قریب
جستجوئے صفات و ذات گئی
یہ اشعار عشق کی اُس کیفیت کے آئینہ دار ہیں، جنہیں کسی حد کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اُن کی غزل کے مجموعی آہنگ اور اندازِ بیان کی عمومی کیفیت کا تعلّق ہے، اُن کے کلام میں حسرتؔ کارنگِ تغزّل، اور جگرؔ کی سرشاری نمایاں نظر آتی ہے۔
داغؔ کی شاعری میں اردو غزل آدابِ عشق کے جس تہذیبی پہلو سے گریزاں نظر آنے لگی تھی، حسرتؔ نے اُسے اپنایا، اور جگرؔ نے ایک والہانہ کیفیت عطا کردی۔ موجودہ دور میں جب اردو شاعری کا لباس، مسائلِ حیات میں اُلجھ کر کہیں میلا، اور کہیں شکن آلود دکھائی دینے لگا ہے، شاعرؔ لکھنوی کی طرح، حنیف اخگرؔ کی غزل نے بھی اُسے ایک خوش رنگ پوشاک دینے کی کوشش کی ہے۔ اس پوشاک کی تراش خراش روایتی ضرور ہے مگر اس کی آرائش میں اپنے عہد کا زاویہ ء نگاہ بھی بڑے قرینہِ سے چمکایا گیا ہے
دیکھیں اب اس سے جام بنے، یا کسی کا دل
مٹّی تری زمیں کی کفِ کوُزہ گر میں ہے
خلوتِ جاں میں ترا درد بسانا چاہے
دل سمندر میں بھی دیوار اُٹھانا چاہے
یہ بھی ہو شاید کوئی کارِ بہار
شاخ پر اب ایک پتّہ بھی نہیں
مِثالیں زیادہ پیش کروں تو مضمون طویل ہوجائے گا۔ اس تعارفی تقریب میں صرف اُن گوشوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں جو حنیف اخگر کی شاعری کو انفرادیت عطا کرتے ہیں، اور اُن مدارج کی نشان دہی، جو ہمارے ادبِ عالیہ کی وراثت کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر کے مخصوص تقاضوں سے آگہی کے ضامن ہیں۔ اِس آگہی میں عرفانِ ذات کے علاوہ عرفانِ حیات بھی شامل ہے۔ یعنی وہ خارجی حقیقتیں جنہیں ہم سماجی اور سیاسی شعور سے تعبیر کرتے ہیں۔ اُن کی بعض غزلیں مطلع سے مقطع تک اسی شعور کی غمّاز ہیں۔ خاص طور پر وہ غزل، جس کا ایک شعر ہے
ہر چند ہمہ گیر نہیں ذوقِ اسیری
ہر پاؤں میں زنجیر ہے، میں دیکھ رہا ہوں
اسی طرح، یہ اشعار جو روایتی لہجے میں عصری آگہی کا آئینہ دکھاتے ہیں
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے، کوئی تشنہ ہے
مُرتّب اس طرح آئینِ مے خانہ نہیں ہوتا
مانا کہ رہگزر میں ہیں، پتّھر نہیں ہیں ہم
ہم سے بھی بات کیجیے، انسان کی طرح
پوچھتی رہتی ہے جو قیصروکسریٰ کا مزاج
شان یہ خاک نشینوں میں کہاں سے آئی
حنیف اخگرؔ کو ادب کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا احساس ہے، اور اپنے اشعار میں وہ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں
اخگرؔ کچھ اور وسعتِ احساس چاہیے
اس دور میں غزل کے ہیں امکاں نئے نئے
روایتی غزل میں جو الفاظ متروک سمجھے جاتے ہیں، یا جنہیں غزل کی لغات سے باہر سمجھا گیا، انہیں برت لینا اور غزل کا حصّہ بنا دینا، کلاسیکی ادب کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے
میرؔ نے کہا تھا
شعر میر ےہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو، عوام سے ہے
ظاہر ہےکہ جب گفتگو عوام کی ہوگی تو زندگی کے سنگین مسائل بھی موضوعِ شعر بنیں گے۔ اور وہ الفاظ بھی برتے جائیں گے جو غزل کی مخصوص روایتی تہذیب کے منافی ہیں۔ اخگرؔ صاحب نے ایسے الفاظ سے گُریز تو کیا ہے، مگر جہاں ضرورت محسوس کی، بلا تکلّف اپنالیا ہے
لاحاصلی کے گِرد اُمّیدوں کا دائرہ
بیوہ کی چوڑیوں کا مقدّر لگا مجھے
اس قسم کے اشعار سے اُن کی شخصیت کا ایک اور پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اور وہ ہے، اپنے مخصوص ادبی نظریات کے باوجود، ان کی کُشادہ دلی، جسے آپ کُشادہ ظرفی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ بقول ولیؔ دکنی
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سُخن
یہ عمل اُسی وقت ممکن ہے، جب انسان ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی طرف دیکھنے کا بھی حوصلہ رکھتا ہو۔ اخگرؔ صاحب میں یہ حوصلہ مجھے نظر آتا ہے، اور اس کی گواہی نہ صرف اُن کی شاعری دیتی ہے، بلکہ بعض ایسے الفاظ بھی جو شاید غیر شعوری طور پر اُن کے کلام میں درآئے ہیں۔ آپ شاید اس جملے پر قدرے چونکے ہوں کہ شعر میں الفاظ غیر شعوری طور پر بھی در آتے ہیں!۔
جی ہاں، میرا خیال ہے کہ ہر شاعر کے کلام میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو شاعر کی نفسیات یا اُس کی شخصیت کے کسی خاص پہلو کی طرف اشارہ کرجاتے ہیں، اور بعدِ ازاں اُس کی پہچان بن جاتے ہیں۔ پوری تاریخِ ادب میں آپ کو ایسی مثالیں ملیں گی۔
اخگرؔ صاحب کی غزل میں لفظ “آئینہ” بار بار آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل شعوری طور پر نہیں ہوتا، ورنہ شاعر لفظ کی تکرار کے خوف سے اُسے ترک کردے۔
دراصل، یہ لاشعور کی آئینہ کاری ہے، جو شاعر کے باطن کے پردے اُٹھاتی ہے۔ میں کسی شعر کا حوالہ نہیں دوں گا، آپ سے صرف اتنی گزارش کروں گا، کہ 'چراغاں' (حنیف اخگرؔ کا مجموعہء کلام) کا مطالعہ کرتے وقت ' آئینہ' ضرور پیشِ نظر رکھیے ۔ اور دیکھیے کہ اس شاعر کا باطن کتنا شفّاف ہے۔ میں اُن کے ایک شعر پر اپنا مضمون ختم کرتا ہوں
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچّائیوں کی آخری پہچان کی طرح
* * *
No comments:
Post a Comment