چراغاں
پروفیسر منظور حسین شورؔ
فیڈرل بی ایریا، کراچی
حنیف اخگرؔ کے تغزّل کا سب سے امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ فکر کو جذبہِ کے ساتھ اور جذبہِ کو فکر کے ساتھ کچھ اس سلیقہِ سےہم آہنگ کردیتے ہیں کہ اُن کی غزل میں نہ عقل اُن کی وارفتگی سے کہیں شرمندہ نظر آتی ہے، نہ اُن کی وارفتگی سے کہیں عقل کو خفّت محسوس ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے اندر اپنی ذات کے واسطے سے حیاتِ انسانی کا شعور مفقود ہوتا ہے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرزا غالبؔ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی:۔
پیمانہ برآں رِند حرام است کہ غالبؔ
در بیخودی اندازہء گفتار نہ داند
اخگرؔ صاحب کی بالغ النظری نے ان کو اپنی انا کے حصار سے باہر نکال کر حُسن و عشق کے وجدان کے ساتھ ساتھ وہ بصیرت بھی عطا کی جس کے فیضان سے جہاں اُن کا ایک ہاتھ محبوُب کے ہاتھ میں نظر آتا ہے، وہاں اُن کا دوسر ا ہاتھ زندگی کی نبض پر ہوتا ہے۔ اُن کے تغزّل کا اخلاص،، اور جذبات کی شائستگی کا اندازہ چراغاں کی غزلوں کے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
جناب سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کی فکر اور جذبات کی ہم آہنگی میں ایسا توازن موجود ہے، جس نے اُن کے تغزّل کو وجدانِ حُسن، اور عرفانِ حیات کی دوآتشہ شراب بنادیا ہے۔
* * *
No comments:
Post a Comment