بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے ، پٹنہ ۔۔ وائس آف امریکہ
آم کا تصور ذہن میں آتے ہی خود بخود ملیح آباد کاخیال آ جاتا ہے، کیوں کہ ملیح آباد ایک ایسا تاریخی قصبہ رہاہے جہاں صدیوں سے آموں کے باغات لگائے جاتے رہے ہیں اور ان باغات میں طرح طرح کے آم پیدا ہو تے رہے ہیں۔
یوں تو ملیح آباد لکھنئو سے محض 28کلو میٹر پر واقع ہے، لیکن اس بستی کی اپنی تاریخ رہی ہے۔ یہ دراصل شیخ ملیح کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں کے سادات نے علم و حکمت اور طبابت میں اپنے جوہر دکھائے اور ان میں سے کئی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ سید حسین احمد صاحب جو مشہور طبیب تھے، سید احمد بریلوی کے ساتھ جہاد پر گئے تھے۔ فقیر محمد خاں گویا انہیں سے بیعت تھے۔ لیکن ملیح آباد کو تہذیبی عروج اور سربلندیاں قندھاریوں اور آفریدیوں کی آمد سے نصیب ہوئیں۔ اس کے شمال میں 15 کلو میٹر پر راجپوتوں کی بستیاں تھیں۔ جو اپنے اپنے علاقوں میں راجا کہلائے جاتے تھے۔ نواب فقیر محمد خاں گویا نے یہ علاقہ راجگان سندیلا سے حاصل کیا تھا۔ پھر وزیر اودھ آغا میرکی دعوت کی تھی جس کے لیے ایک بارہ دری اور پانچ محلات تعمیر کروائے تھے۔ پھر اپنے تعلقے کو اپنے دونوں بیٹے محمد احمد خاں اور نسیم خاں میں برابر سے تقسیم کر دیا تھا۔ نواب احمد خاں کی 113 اولادیں تھیں۔ اسی خاندان سے جوش ملیح آبادی کا بھی تعلق تھا۔
لیکن ملیح آباد کی اصل شہرت ثمر بہشت یعنی آم سے ہے۔ قلمی آموں کو روایت دینے کا سہرا عبد الحمید خاں قندھاری کو ہے جنہوں نے دسہری کو عالم گیر شہرت دی اور 1886ءمیں دو سو بیگھا پختہ پر دسہری کے باغات تیار کیے۔ اس وقت کے دسہری کے تاریخی درخت آج بھی موجود ہیں۔ پھر نئی نئی آم کے اقسام پیدا کرنے کے طریقے آیجاد کر کے سو سے زیادہ اقسام خود پیدا کیں اور پورے ملک سے اعلیٰ درجے کے آموں کے قلم منگوا کر یہاں لگوائے گئے۔آج دسہری کے علاوہ ملیح آباد میں تیرہ سو سے بھی زائد قسموں کے آم یہاں پیدا ہو تے ہیں۔
نوابیں بنگال جنہوں نے آم کی اعلیٰ قسمیں تیار کی تھیں۔مرشدآباد سے سب قسمیں ملیح آباد منگا لیں اور رحمان کھیڑا کو گلزار رحمانی کے نام سے شہرت دے دی جو انہوں نے اپنے پیر فضل الرحمن گنج مراد آبادی کے نام پر رکھا تھا۔ انہیں کے نام کی برکت سے آج رحمن کھیڑا سوئل کنزرویشن اور مینگو ریسرچ کا بہت بڑا مرکز یہاں قائم ہے، جسے بھارت سرکار چلاتی ہے۔
یہاں کے ایک ماہر آم حاجی کلیم اللہ نے ایک ہی پیڑ پر آم کی تین سو قسمیں پیدا کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ہر آم کی شکل و صورت الگ ہے، ذائقہ مختلف ہے، رنگ بھی منفرد ہے۔ انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں بھارت سرکار نے پدم شری کے اعزاز سے نوازا ہے۔
لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس سال ملیح آباد کے باغوں سے دسہری بالکل غائب ہے۔ حاجی کلیم اللہ کہتے ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں انہوں نے آموں کی اتنی کم فصلیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ آم کی فصل ایک سال بہتات کے ساتھ ہو تی ہے اور دوسرے سال کم ہوتی ہے لیکن اتنی بھی کم نہیں جیسی اس برس ہوئی ہے۔
بہا رکا مشہور آم مالدہ ہے۔ اسے بھی ذائقہ کے لحاظ سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ یہ پٹنہ سے ملحق ایک مقام دیگہہ میں پیدا ہو تا ہے۔ یوں تو دیگہہ کے باغات پورے بہا رمیں ہیں لیکن دیگہہ کے آموں کا ذائقہ الگ ہوتا ہے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے اس سال دیگہہ کا مشہور دودھیا مالدہ بھی بہت کم پیڑوں پر آیا ہے۔ یہاں آم کے ماہر محمد عمران کہتے ہیں کہ اس سال دودھیا مالد ہ کم پیدا ہونے کا سبب جراثیم ہیں، جن کے باعث آم کے منجر خراب ہو گئے تھے اور انہیں بچایا نہیں جاسکا۔
مالدہ دراصل مغربی بنگال کے مقام مالدہ سے لایا گیا تھا اسی باعث ا س نام سے منسوب ہوا۔ لیکن آج مغربی بنگال کے مالدہ میں اتنی بہتات سے اس آم کی پیدائش نہیں ہو تی ہے۔ بلکہ ملیح آباد میں اسے لنگڑا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آم کی ایک اور مشہور قسم رٹول ہے جوبلند شہر میں پیدا ہو تی ہے۔ آم کی کچھ قسمیں پاکستان میں بھی ہیں جن میں سندھ کا سندڑی آم کافی شہرت رکھتا ہے۔
آم کی ادبی حیثیت بھی ہے اسی لیے کالی داس سے لے کر مرزا غالب تک نے آموں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے منسوب محاورے بھی رائج ہیں جیسے’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ یا پھر’ آ م کھانے سے مطلب رکھےس گٹھلیاں گننے سے نہیں۔‘
No comments:
Post a Comment