-
خلق مجسم
تحدیثِ نعمت
سید محّمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی
الحمدللہ! میری یہ دلی آرزو، کہ اپنی زندگی میں ہی اپنا خراج عقیدت اور تمنّائے غلامی اپنے آقاؐ اور وجہِ تخلیقِ کائنات سیّدنا و مولانا حضرت محمّد الرسول ﷺ کی خدمت میں ایک مجموعہِ حمد و نعت و منقبت کی شکل میں پیش کروں، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پوری ہو رہی ہے۔ اور اس کے لیے میرے معبود ہی نے کہ وہی مسبب الاسباب ہے تمام عناصر فراہم فرمائے۔ اور میری یہ مختصر تحریر اسی تحدیثِ نعمت کے فرض کی ادائیگی کے لیے ہے۔ اور یہ تحدِیثِ نعمت و ہ عالم الغیب اور علیم بذاتِ الصدور جانتا ہے کہ میرے اسی احساسِ تشکّر پر مبنی ہے۔ ویسے میں اپنی بقیہ زندگی اگر سجدے ہی میں پڑا رہوں تو بھی معبود کے اس شکر کا جو مجھ پر لازم ہے، ایک ذرّہ کے برابر بھی حق ادا نہ ہوگا۔
حمد و نعت و سلام و منقبت وہ اصنافِ سُخن ہیں، جن کے لیے فطری شاعرانہ صلاحیّت، مشقِ سُخن، وسیع مطالعہ، ریاضتِ فکری، اور فصاحتِ زبان سے بھی پہلے اور کہیں زیادہ اہم عُنصر رب العزّت کی طرف سے انعام کردہ توفیق ہے کہ جو اس طرف ذہن و فکر کو مائل کرتی ہے۔ اور اس قدر مائل کرتی ہے کہ شوق شعورِ عشق تک آجاتا ہے۔ یہ توفیق انسان کو صرف ذاتِ باری تعالیٰ انعام کرتی ہے۔ مجھے یہ توفیق اپنے والدین مرحومین کے سایہ میں نصِیب ہوئی۔ میرے والد مرحوم حضرت قاضی سیّد محمد شریف اثرؔ کسمنڈوی اور میری والدہ مرحومہ سیّدہ رضی النِّسا دونوں بڑے مُتّقی اور پرہیز گار تھے، اور سرکارِؐ دوعالم کے نام پر جان و دل سے نثار تھے۔ میری امّی مرحومہ کا تو یہ حال تھا کہ سرکارِ دوعالمؐ کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں میں ایک چمکدار نمی فوراً آجاتی تھی، اور جب میں امیر مینائی یا مُحسن کاکوروی یا قبلہ ابّا میاں مرحوم کی کہی ہوئی کوئی نعت ترنّم سے پڑھتا تو وہ چمکدار نمی گوہرِ غلطاں کی طرح ان کی پلکوں سے چھن کر ان رُخساروں پر ایسی لگتی تھی جیسے گُل ہائے تازہ پر عرقِ شبنم اور ابّا میاں مرحوم سبحان اللہ، ماشااللہ قدرے زور سے کہتے اور درود زیرِ لب پڑھتے رہتےتھے۔ بہت کم سِنی ہی میں امّی نے مُجھ کو کہانیوں کی طرح بہت سے قصص الانبیاؑء، مثلاً حضرت ابراہیمؑ پر آگ کے گلزار ہوجانے کا واقعہ، حضرت موسیٰ ؑ کو کوہِ طُور پر نبوّت ملنے اور طُور پر ہی برقِ تجلّی سے بے ہوش ہونے اور کوہِ طُور کے جلنے کا واقعہ، حضرت نوحؑ کی کشتی اور قومِ نوحؑ پر طوفانی بارش کا عذاب اور ان کے بیٹے کے سلسلہ میں اُن کی دعا اور رب العزّت کا جواب، قومِ لُوط پر پتھراؤ کا عذاب، اور ساتھ ہی حضوُر سرکارِ دوعالمؐ کا کلمہ کنکریوں کی زبانی، معجزہء شق القمر، معراج کا واقعہ، وغیرہ بار بار سُنائے۔ حضرت ابراہیم ادہم ؓ اور رابعہ بصری ؓ کے واقعات وکرامات سن کر تو میں یہ سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ میرے والد ابراہیم ادہمؓ ثانی، اور میری والدہ رابعہ بصریؓ ثانی تھیں۔ ان دونوں کے سائے میں مجھ کو رب العزّت نے پروان چڑھا کر اور ایسے اعلیٰ مرتبت مسلمانوں کی اولاد بنا کر خالقِ کائنات نے مُجھ پر اتنا بڑا احسان کیا کہ اس کا شکر کماحقہٖ ادا نہیں ہوسکتا۔ اس عظیم احسان کو اگر میں اُمّ الاحسان کہوں تو درست ہوگا، عین صداقت ہوگا، کیونکہ اس احسان کے ہی ضمنی فوائد میں نماز کی پابندی نصیب ہوئی۔ جو اوّل اوّل امّی مرحومہ ہی کی خوشی اور ان سے ملنے والی شاباشی کے لیے شروع ہوئی۔ رسولؐ اللہ سے محبّت بھی اسی طرح ہوئی کہ ان سے میرے والدین بہت محبّت کرتے تھے،ا ور مجھ کو فطرتاً بس وہی پسند ہوتا تھا جو انہیں پسند ہو۔ امّی مرحومہ نے مجھ کو والدین کے احترام اور ان کے درجہ کا احساس کرنا بھی بچپن ہی میں سکھا دیا تھا۔ ان کی تعلیمات کو ذہن نشین کرلینا،ا ور ان کا حکم بے چوں و چرا مان لینے اور ان کی خوشی ہی میں اپنی خوشی کا یقین رب العزّت کی طرف سے ودیعت اور انعامِ خاص تھا۔ اور اس میں توفیقِ حمد و نعت و سلام و منقبت شامل تھی۔
دوسرا اہم عُنصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی محبّت ہے۔ جو ایک اور انعام خاص ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ لگتاہے کہ یہ دوسرا نہیں بلکہ پہلا عنصر ہے کہ اسی محبّت سے تو وہ گُداز قلبی اور لہجہ کی نرمی، پاکیزگیء خیال، اور احتیاطِ لفظی نصیب ہوتی ہے۔ ۔۔ جو حمد و نعت و سلام و منقبت کے لیے لازم ہوتی ہے۔ مجھ کو سرکارؐ سے جو محبّت ہوگئی، وہ میرے لیے دراصل والدین کی سرکارؐ سے محبّت ہی کا عکس تھی۔ بہر حال، اس قدر مقدّس سمندر میں سے جو ایک قطرہ بھی ملا ہے وہ انشااللہ میری دنیا بلکہ آخرت کو بھی سنوارنے کے لیے کافی ہوگا، اور میری آنے والی نسلوں کے لیے بھی ۔۔ اگر میں احتیاط سے اس تحفہ کو اپنی اولاد کے توسّط سے مستقبل کی طرف اللہ پاک کے فضل و کرم سے منتقل کرسکوں۔ حق تو یہ ہے کہ میری والدہ مرحومہ تو بہت جلد کوچ کرگئی تھیں، لیکن میرے والدمرحوم تو میری اولادوں کی بھی بنیادی تربیت کرگئے ہیں، اور اللہ کے اس انعام کا شکر شب وروز متواتر جبیں سائی اور تسبیح سے بھی ادا کیا جائے تو بھی سیری نہ ہو۔
تیسرا عنصر تلمُّذ، یعنی حمد ونعت و سلام و منقبت کے لیے کسی استاد شاعر کی شاگردی کا شرف حاصل کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں بے حد خوش نصیب ہوں، کہ رب العزّت نے مجھے اس خفّت سے بچالیا، کہ اگر کوئی اچھا شعر ہوگیا تو سامعین اس کو استاد سے منسو ب کردیں، اور کوئی شعر پسند نہ آئے تو یہ کہا جائے کہ لائق استاد سے بھی یہ نالائق کچھ حاصل نہ کرپایا۔ لیکن میں نے سیکھا تو بڑے بڑے استادوں سے ضرور ہے۔ اور وہ یوں کہ میں نے اپنے بڑوں سے کسبِ ہُنر کیا ہے۔ مثلاً، غزل کے سلسلے میں غالبؔ، داغؔ، جگرؔ، حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، اور شاعرؔ لکھنوی کے کلام کا بغور مطالعہ کرکے ۔ ۔ ۔ ان کے شعری محاسن اور تراکیب، صنائع اور بدائع کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ان کی زمینوں میں یعنی انہیں کی غزلوں کے کسی مصرعہ کو مصرعہ ء طرح بنا کر غزلیں کہی ہیں۔ اور بہ ایں ہمہ کوشش یہ کی ہے کہ کوئی بات کسی نئے زاویے سے اپنے لہجے میں کہی جائے۔ میرے دو مجموعے، “چراغاں”، اور “خیاباں” اس کے شاہد ہیں۔ ان میں زیادہ تر طرحی غزلیں ہیں، جو عہدِ حاضر اور ماضی کے اساتذہ کی زمینوں میں ہیں۔حمد و نعت و سلام و منقبت کے سلسلے میں بھی میں اپنے والدین کی پسندیدگی کے تحت مرحوم اباّ میاں کے علاوہ امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، جگرؔ مرادآبادی، حسرتؔ موہانی کی نعتوں کے بغور مطالعہ کے ساتھ ساتھ پروفیسر حفیظؔ تائب، رونقؔ بدایونی، عبدالحمید صدّیقی لکھنوی، اور بالخصوص شاعرؔ لکھنوی مرحوم کی نعتوں سے نہ صرف بار بار محظوظ ہوا ہوں، بلکہ ان کو اپنے لیے ایک معیار مقرّر کیا ہے، اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں ان سب کو اُستاد مانتا ہوں اور جانتا ہوں۔ یعنی ان کی فنّی مہارت کا قائل ہی نہیں، خود کو اس پر حسبِ توفیق مائل ہوتا بھی نظر آتا ہوں۔ اور آمادہ بھی پاتا ہوں۔ اس طرح یہ تیسرا جزوِ لازمی بھی خدا کے فضل سے مُیسّر ہوگیا۔
چوتھا عُنصر مناسب ماحول ہوتا ہے۔ الحمدللہ مجھے ملیح آباد ہی میں عمر کے ابتدائی سولہ سال گزارنے کا موقع ملا۔ جہاں آئے دن میلاد شریف کی پاکیزہ محفلیں تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی محلّے میں اور خاص طور پر ماہِ ربیع الاوّل میں روزانہ دو ایک محفلیں ہوتی تھیں۔ جہاں مجھ کو بھی نعت خواں کی حیثیت سے لوگ بڑی قدر و منزلت سے مدعو کرتے تھے، اور میں قبلہ ابّا میاں مرحوم کے ساتھ شرکت کرتا تھا۔ پھر لکھنٔو میں چھ سال قیام رہا۔ جس میں سے تقریباً تین سال میرا قیام کرنل نواب راحت سعید خاں صاحب چھتاری مرحوم کے ساتھ پہلے راجہ صاحب سلیم پور کی کوٹھی واقع قیصر باغ میں، اور پھر ڈاکٹر بھاٹیہ کی کوٹھی واقع ریڈچی روڈ میں رہا۔ امیرالدولہ اسلامیہ کالج کا طالب علم تھا، اور باقاعدہ شاعری کا آغاز 1945ء میں کالج ہی کے ایک طرحی مشاعرہ میں اوّل انعام کے حصول کے ساتھ ہوچکا تھا۔ لکھنؤ کا ماحول شعر و شاعری کے لیے نہایت موزوں تھا، اور وہاں نشرگاہ مسلم لیگ امین آباد سے روزانہ ترانوں کی نشریات اور پاکستان کے سلسلہ میں نت نئے قطعات کا زور، اور نواب صاحب کے دولت کدہ پر تقریباً روزانہ ہی اس دور کے ممتاز شعراء کی محفلیں اور عشائیے ، [منعقد ہوتے]جن میں ناچیز کو بھی شرکت کے بیشمار مواقع نصیب ہوئے۔
پھر دسمبر 1950ء میں ہم لوگ لکھنئو سے ہجرت کرکے کراچی آگئے۔ والدہ صاحبہ کا تو 31 دسمبر 1947ء کو انتقال ہوگیا تھا۔ قبلہ ابّا میاں مرحوم کی سرکردگی میں ہم سب بھائی بہن اور میری اہلیہ [میری شادی 21 جون 1950ء کو ہوگئی تھی] کراچی آگئے تھے۔ لیکن ملیح آباد اور لکھنؤ میں مجھے جو ماحول اللہ کے فضل سے نصیب ہوا، وہ میرے ذوقِ شاعری کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ اس کے بعد تقریباً بائیس [22] سال حصولِ تعلیم اور کسبِ معاش میں اور اس قدر زیادہ مصروفیت رہی کہ اس عرصہ میں شاذ و نادر ہی کسی مشاعرہ میں کسی نہ کسی دوست کے اصرار پر جو مجھ سے ایک شاعر کی حیثیت سے واقف ہوتا تھا شرکت کرپاتا تھا۔ [اس بائیس برس کے عرصہ میں میری برطانیہ، اور ریاست ہائے متّحدہ امریکہ میں تعلیم اور ٹریننگ کا زمانہ بھی شامل ہے۔] پھر جنوری 1973ء میں اقوام متحدہ سے وابستہ ہوگیا، اور نیویارک میں معاشی آسودگی کے ساتھ ساتھ مجھ کو شعر و سخن کےلیے وقت بھی مُیسّر ہوگیا۔ اسی کے ساتھ یہاں مجھ کو لکھنؤ کے ایسے احباء جو مجھ سے بے لوث محبّت کرتے تھے اور میری شاعری کو پسند کرتے تھے مل گئے۔ اور ان کے تعاون اور اصرار پر یہاں ادبی سرگرمیاں زور و شور سے شروع ہوگئیں۔ 1976ء سے 1980ء تک میں یونائیٹیڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام کے ڈپٹی ریجینل نمائندہ برائے سعودی عرب، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات،ا ور سلطنت عمّان کی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔ اور میرا ہیڈکوارٹرز ریاض تھا۔ ان چار سالوں میں ہر سال حج بیت اللہ، اور ہر ماہ کم از کم ایک عمرہ اور ایک حاضری دربارِ نبوی کی نصیب ہوتی رہی۔ اور ان حاضریوں نے کتابِ زیست میں ایک بڑے سنہرے اور قابلِ فخر باب کا اضافہ کیا۔ اور اظہارِ تشکّر کے لیے ایک نہایت مبارک دور ربِ کریم و فاطر السمٰوات و الارض نے نصیب فرمادیا۔ اور یہیں اللہ کے کرم سے میرے ذوقِ نعت گوئی کو ایسا حوصلہ ملا اور ایسا جنونِ شوق حمد و نعت مرحمت ہوا جس کا اعتراف و تشکّر “خلق مجسم” کی نعتوں اور حمدوں میں آپ کو انشا اللہ ضرورملے گا۔ سو اس طرح یہ چوتھا عُنصر بھی ربِ کریم نے مرحمت فرمادیا۔
اس مجموعہ میں ایک مناجات، چھ حمدیں، 92 نعتیں، 3 سلام، اور 8 منقبتیں ہیں۔ اور ان سب کے لیے سارے ضروری لوازمات رب العزّت نے اپنے فضل و کرم سے مرحمت فرمائے۔ اور اس تحدیثِ نعمت کے مضمون کا حرف حرف اظہارِ تشکّر ہے۔ ایک اور اقرار میں یہاں کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں “الحمدللہ ربّ العالمین” پر یقین کامل رکھتا ہوں۔ یعنی ساری کی ساری توصیف و مدحت، تمام تعریف اور شکر، بڑائی اور ساری کبریائی صرف اور صرف اللہ کے شایانِ شان ہے۔ اس لیے نعت میں جب ہم سرکارِ دوعالم وجہِ کائنات سیِد عالم حضرت محمّد رسول اللہ صلی اللہ و علیہ وسلّم کی تعریف و توصیف کرتے ہیں تو وہ بھی در اصل بنیادی طور پر حمد ہی ہوتی ہے۔ یعنی مخلوق کی تعریف دراصل خالق کی تعریف ہوتی ہے۔ لیکن حمد و نعت میں امتیاز رکھنا ضروری ہے۔ ہر نعت تو حمد ہوسکتی ہے، مگر کوئی حمد نعت نہیں ہوتی۔ کیونکہ، نعت اصطلاحاً نبی کریمؐ کی تعریف و توصیف میں کہی جاتی ہے،ا ور نبی کریم ؐ مخلو ق ہیں، خالق نہیں ہیں۔ نبیوں اور سارے انسانوں میں سب سے زیادہ محترم ہیں۔ محترم ترین ہیں، انسانوںمیں یکتا انسان، اور بے مثال انسان ہیں۔ حضورؐ بے شک وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں، مگر خالق نہیں ہیں،ا ور میں نے حتی الامکان یہ کوشش کی ہے کہ قلم سے کوئی ایسی لغزش سرزد نہ ہوجائے کہ مبادا جذبات کے طوفان میں شرک کا ارتکاب سہواً ہوجائے۔ البتہ، حمد، یعنی اللہ کی تعریف میں حضور اکرمؐ کی تعریف کا شامل ہونا ضروری لگتا ہے۔ سب سے بڑے حمد گو تو حضورؐ خود ہی تھے۔ شاعر لکھنوی نے کیا خوب کہا ہے:۔
-
نا مُکمّل ہے چمن کی تصویر
اک بہارِ گلِ سرمد کے بغیر
کیجیے لاکھ خُدا کی تعریف
حمد تِشنہ ہے محمؐد کے بغیر
تخلیق کردہ شاہکار کی تعریف خالق ہی کی تعریف ہے۔ پس سرکار کی ذاتِ گرامی جو خالقِ کونین کی سب سے محبوب تخلیق ہے، خود بخود خالقِ کونین کی تعریف یعنی اللہ کی حمد ہوتی ہے۔ پس اس کتاب میں جتنی تعریف، جس جس مخلوق کی، کی گئی ہے دراصل وہ ساری تعریف صرف اور صرف خالق ہی کی تعریف ہے۔ اور یہ ساری توفیق و احتیاط بھی اس بندہِ حقیر و فقیر، سرتا پا کے لیے ایک نعمتِ عظمٰی ہے،ا ور اس کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہوگا۔
یہ مضمون تشنۂ تکمیل رہے گا،ا گر میں اس میں اپنے اظہارِ تشکّر کو جگہ نہ دوں۔ میں ان تمام نعت گو شعراء اور نعت خواں حضرات کا تہہء دل سے ممنون ہوں جن کے ہنر اور لہجہ نے میرے لیے رہنمائی اور روشنی فراہم کی۔ میں برادرِ محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب، برادرِ محترم ڈاکٹر ابوالخیر کشفی صاحب، برادرِ محترم پروفیسر محسن احسان صاحب، محترم ماہرِ اقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزاد صاحب، اور عزّتِ مآب ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب سابق وائس چانسلر کراچی یونی ورسٹی، ڈاکٹر پروفیسر عروج اختر زیدی [کینیڈا]، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدّیقی وائس چانسلر وفاقی یونی ورسٹی آف پاکستان کا تاحیات بے حد شکر گزار رہوں گا کہ انہوں نے اپنی حوصلہ افزاء تقاریظ اور قیمتی آراءسے اس خاکسار کو ممنون فرمایا، اور اُس کے مجموعہ “خُلقِ مُجسّم” کو مکمّل، معتبر، اور پُر وقار کردیا۔ میں جناب ماجد خلیلؔ، قمرؔ وارثی صاحب، اور افضال صدّیقی صاحب کا بے حد ممنون ہوں، جن کے دستِ تعاون اور جذبہء محبّت نے اس مجموعہ کی اشاعت میں آسانیاں اور اس کا نہایت جاذبِ نظر اور انوکھا سرورق مہِیا کرکے اس کی ایسی تزئین بھی کردی جیسی گویا میرے صفحہء خیال پر چسپاں تھی۔ اور جن کی کوششوں سے یہ مجموعہ شائع ہوسکا۔ ایسے عظیم محسنین کا میرے حق میں اس قدر کشادہ دل ہونا بھی انعامِ خداوندی ہے۔ اس کے لیے میں اپنے رب کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہوگا۔
آخر میں ایک التجا اس کتاب کے قارئین سے کرتا ہوں، کہ آپ کو اس کتاب میں جہاں کہیں کوئی خامی نظر آئے، یا کوئی شعر شاید پسند آہی جائے، تو اس کی اطلاع اس خاکسار کو ضرور دیجیےگا، کہ ایسی ہر نشاندہی مستقبل میں میری رہنمائی کرے گی۔ جس کے لیے میں آپ کا شکر گُزار رہوں گا۔ میں آپ سے یہ بھی درخواست کروں گا کہ اگر کوئی شعر یا کوئی مصرعہ بھی آپ کو اچھا لگے تو اس کی بارگاہِ رسالتؐ میں قبولیت کی اور مرے لیے نجات کا ذریعہ بن جانےکی دُعا ضرور کیجیے گا۔ آپکی یہ دُعائیں ایک اور گنجینۂ نعمت فراہم کریں گی۔ اور اس انعام کے لیے بھِی میں اپنے اور آپ کے رب کا تہہ دل سے شکر ادا کرتا ہوں ، اور یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو میرے حق میں دعا کرنے کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔
دعاگو۔ غلامِ غلامانِ محمد ﷺ
سَیّد محمّد حنیف اخگر ؔ ملیح آبادی عفی عنہُ
فروری 2003ء
٭
-
Saturday, September 12, 2009
تحدیث نعمت: خلق مجسم - حنیف اخگر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment