Total Pages Published شائع شدہ صفحات


Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click "How to Enjoy this Web Book"

Best Viewed Using Jameel Noori Nastaleeq - Please Click  "How to Enjoy this Web Book"
How to Enjoy this Web Book - Click Above ... اس ویب کتاب سے لطف کیسے اٹھائیں - اوپر کلک کریں

Amazon in association with JUSTUJU presents

English Translations

Webfetti.com

Please Click above for Akhgar Poetry in English

Tuesday, September 8, 2009

ڈاکٹر عروج اختر زیدی، کینیڈا: ۔”خُلقِ مُجسّم” کا شاعر




Urooj Akhtar Zaidi


ڈاکٹر عروج اختر زیدی

zaidis@mnsi.net؛ uazaidi@home.com

صدر، حلقہء اربابِ قلم، شمالی امریکہ - وِنڈسر، کینیڈا




۔”خُلقِ مُجسّم” کا شاعر


نیویارک کے غوغائے رستا خیز[رست و خیز]* میں ایک سعید اور بالیدہ روح ایسی بھی ہے، جو بنی نوعِ انسان کے اس بحرِ بیکنار کے تمام ہنگاموں سے بے نیاز، جذبہء حبِّ نبیؐ سے یوں سرشار ہے کہ جب کبھی حضورؐ کا اسمِ مبارک یا حضور کی آل کا ذکر اس کی سماعت کی حدوں میں ہوتا ہے تو اس کی آنکھیں وفورِ عقیدت سے، آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔


کسی کے کلام میں احترام کے ساتھ ساتھ اتنا سوز و گداز صرف قوّتِ بازو یا زورِ قلم سے نہیں پیدا ہوتا؛ یہ سعادت صرف خدائے بخشندہ کا عطیہ ہے، اور جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کو اس کا حصّہ وافر مقدار میں عطا کیا گیا ہے۔


شمالی امریکہ میں جن اہلِ قلم نے اردو زبان و ادب کی نُمایاں خدمات سرانجام دی ہیں ان میںجناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا نام سرِ فہرست ہے۔ اُن کے زیرِ قیادت حلقہء فن و ادب شمالی امریکہ، نیویارک نے ان گنت بین الاقوامی ادبی محافل منعقد کی ہیں۔ ان محافل سے اردو شعر و سخن کی بزم میں جو چراغاں ہوا ہے، اس کی روشنی صرف نیویارک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ وہ امریکہ ، کینیڈا، اور یورپ میں وہنے والی ادبی سرگرمیوں کے لیے مشعلِ راہ بنی۔


۔”خلقِ مُجسّم” جناب سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا مجموعہ ء نعت ہے۔ اس مجموعہء نعت میں حمد و منقبت کی بھی حسین آمیزش ہے۔ لیکن اس کا بنیادی مقصد کیونکہ بارگاہِ رسالت میں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے، اس لیے نعتیہ حصّہ حمد منقبت پر حاوی ہے۔ فنِ نعت گوئی ایک شاداب و سدا بہار فن ہے۔ ایک گلشنِ بے خزاں ہے۔ اس کی تازگی کا سلسلہ ابدالآباد تک جاری رہے گا۔ صنفِ نعت اظہارِ محبّت و عقیدت کا وہ ذریعہ ہے جس کی ابتداء کلام ِ الٰہی سے ہوتی ہے۔ دورِ رسالت میں حضرتِ کعبؓ بن زہیر اور حضرتِ حسّانؓ بن ثابت سے لے کے آج تک ان گنت عقیدت مندانِ رسولؐ نے اِس صنفِ سُخن کے ذریعہ اپنی محبّت کے پھول درِ بارگاہِ رسالت پر نچھاور کیے ہیں، اور نعت گوئی کو اپنے لیے ذریعہ ء مغفرت گردانا ہے۔ حضورؐ کی محبّت و عقیدت ان کے معتقدین میں کچھ اس طرح جاگزیں ہے کہ ہر ساعت سپاس گزار اپنی تمام تخلیقی قوّتوں اور صلاحیّتوں کے باوصف [باوجود] اپنے آپ کو اپنے جذباتِ عقیدت کے اظہار پر قادر نہیں سمجھتا۔ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:۔


مجلسِ تمام گشت و بپاں رسید عمر

ماہمچناں بہ اوّل وصفِ تو ماندہ ایم


ہزار بار بشویم دہن زِ مشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمالِ بے ادبسیت


خواجہ عزّت بخاری فرماتے ہیں:۔


ادب گاہیت زیرِ آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؒ و بایزیدؒ اینجا


غالبؔ جیسا قادرالکلام شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے:۔


غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشتیم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است


یا


من خود خجل کہ حقِّ ستایش ادا نہ شُد


حنیف اخگرؔ بھی اس سلسلہ میں اپنے عجزِ بیان کے معترف ہیں،ا ور اس کا اظہار انہوں نے اپنی نعتوں میں جا بجا کیا ہے۔ اس مجموعہ کی تمام نعتیں غزلیہ ہیئت میں کہی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنیف اخگرؔ صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ اور ان کا فنِ شاعری غزل ہی کے دامن میں پروان چڑھا ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے، “چراغاں”، اور “خیاباں” شائع ہوکر اہلِ ذوق سے دادِ سُخن لے چکے ہیں۔ یوں وہ غزل سے نعت نگاری کی جانب آئے ہیں۔ اس لیے ان کی نعت میں کہیں کہیں غزل کی رمق اور غزل میں نعت کے جذبات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انکی ایک غزل کا یہ شعر:۔


مِل جائے ان کا نقشِ کفِ پا اگر کہیں

اک اک لکیر جزو رگِ جاں کریں گے ہم


حنیف صاحب کی غزل میں نعتیہ مضامین خاصی تعداد میں ملتے ہیں، اور نعت نگاری کی جانب سفر کرنے کا جذبہ کا بھی اظہار ملتا ہے:۔


اِس طرف اک میکدہ ہے، اُس طرف بابِ حرم

جائیں گے لیکن اِدھر ہو کر اُدھر ہم


حنیف اخگرؔ صاحب کی غزل کے متعلّق جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا ہے کہ:۔


۔”حنیف اخگرؔ کی غزل جگرؔ مُراد آبادی اور اصغرؔ گونڈوی کی غزل کی توسیع ہے۔ رنگ و آہنگِ تغزّل وہی ہے، مگر ان کی غزل کے ایک ایک شعر میں ان کی بھرپور انفرادیت کچھ اس خوبی سے اظہار پاتی ہے کہ شعر میں آفاق گیر وُسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ اخگرؔ کی غزل میں حیرت انگیز بے ساختگی ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سامنے کی بات سادگی سے کہہ دی گئی ہے، مگر اس سادگی میں اتنی گھمبیرتا ہے اور ساتھ ساتھ اتنا جیتا جاگتا عصری شعور ہے کہ یہ غزل اردو کی جدید تر غزل کے جملہ عناصر سے مُزّین ہوجاتی ہے۔ اس بیدار نگاہی کے ساتھ ساتھ جذبہ و احساس کی باریک سے باریک پرتیں بھی کھُلتی محسوس ہوتی ہیں۔ یوں حنیف اخگرؔ کی غزل ظاہر و باطن کی یکجائی کی غزل ہے۔ اور یہ وہ روشن صفت ہے کہ جس نے ان کے پورے کلام کو مُنوّر کررکھا ہے”۔


میری رائے میں حنیف اخگرؔ صاحب کی بھرپور انفرادیت اور بے ساختگی انکے نعتیہ اشعار میں بھی اظہار پاتی ہے۔ اور ان کی نعت بھی ظاہر و باطن کی یکجائی کی بہت عمدہ مثال ہے۔ عرفیؔ نے “رہِ نعت” کو “دَمِ تیغ” سے تشبیہ دیتے ہوئے ہر نعت نگار کو کمالِ احتیاط کی تلقین کی ہے۔ جنابِ حنیف اخگرؔ اس دھار پر سے بسلامت گزر جانے والے شعراء میں سے ہیں۔ کیونکہ ان کا اثاثہ عشقِ رسولؐ ہے۔ وہ اس جذبہء عشق سے آگاہ ہیں۔ انہیں مبداء فیاض سے قدرتِ کلام، جذبہء صادق اور دقّتِ نگاہ کے ساتھ ساتھ حسنِ احتیاط اور پاسِ ادب بھی عطا ہوا ہے۔ خدائے بخشندہ سے میری یہ التجا ہے کہ حنیف اخگرؔ صاحب کے اس مجموعہء نعت کو قبولیت سے سرفراز فرمائے، اور ان کے درجات کو بلند کرے۔


حنیف صاحب نے گزشتہ دو، تین دہائیوں سے ازراہِ محبّت و شفقت جس حُسنِ ظنِ کریمانہ کا اظہار اس خاکسار کے مُتعلّق کیا ہے، اور جو حُسنِ سلوک میرے ساتھ روا رکھا ہے، یہ چند سطور اسی کی سپاس گزاری میں قلمبند کی گئی ہیں، جو نقدِ سُخن کا نہیں، حقیقتاً اظہارِ تشکّر کا ایک ادنیٰ پیرایہ ہے؂


بیانِ قامت آن یارِ دلنواز کُنم

بہ این بہانہ مگر قدِّ خود دراز کنم


مُجھے یقین ہے کہ اہلِ نقد و سخن حنیف اخگرؔ صاحب کی اس کاوش کی خاطر خواہ پذیرائی فرمائیں گے،ا ور “خُلقِ مُجسّم” کو نعتیہ ادب میں وہ درجہ دیں گے جس کا یہ مجموعہ ء نعت حق دار ہے۔


میں بارگاہِ الہٰی میں بصد عجز و الحاح دعاگو ہوں کہ پروردگار جناب حنیف اخگرؔ کی عمر و صحت میں برکت دے، اور عاقبت میں انہیں فوز و فلاح سے سرفراز فرمائے۔[آمین۔] ۔


Tel: (519) 250 - 4700
1995 Grand Marais Road West Windsor, ON

N9E1E9 Canada

uroojakhtarzaidi@gmail.com; zaidis@mnsi.net؛ uazaidi@home.com


٭

آسان اردو – جستجو میڈیا

رُستا خیز، رست و خیز=حشر، قیامت، ہنگامہ، انقلاب۔ ۔ ۔ ۔


اِلْحاح [اِل + حاح] (عربی) ۔۔ طلب یا گزارش کے موقع پر منت سماجت، عاجزی، رو رو کر اور گڑگڑا کر عرضداشت۔

solicitation, urgency, importunity, entreaty





No comments:

Site Design and Content Management by: Justuju Media

Site Design and Content Management by: Justuju Media
Literary Agents & Biographers: The Legend of Akhgars Project.- Click Logo for more OR eMail: Justujumedia@gmail.com