-
کیفِ نعت و سلام
جناب سّید محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نئی دنیا [شمالی امریکہ]میں اردو کے زندہ نشان کی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیت اور اسلامی طرزِ حیات کی ایک علامت بھی ہیں۔
گزشتہ دنوں انہوں نے کراچی کی ایک تقریب میں جس طرح نعتِ حضرت خیرالبشرﷺ پڑھِی، اس سے جگرؔ اور اُن کے ہم عصر شعراء کا دور جیسے زندہ ہوگیا۔
اخگرؔ صاحب غزل کے ایک مُستند اور مُعتبر شاعر ہیں۔ اور اب ان کی حمد ونعت کا مجموعہ آپ کے سامنے ہے۔ اخگرؔ صاحب کی غزلوں میں بھی اُن کے رُوحانی سفر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ لیکن زیرِ نظر مجموعہ 'خُلقِ مُجسّم' اُن کے نُورانی باطن کا منظر نامہ ہے۔
نعت گوئی کے اس انتہائی تابناک دور میں بھی اچھی حمدیہ شاعری کم نظر آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اَن دیکھے خُدا کو اپنی شہ رگ سے بھی قریب محسُوس کرنے، اُسے ہر نظّارۂ کائنات میں دیکھنے، اور قُرآنِ حکیم کی آیات میں اُس کی آواز کو سُننے کے لیے ایمان ، احساس، اور ادراکیت کی جو سطح درکار ہے و بغیر اُس کی توفیق کے انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس ربِّ ذُوالجلال کا فیضانِ تو عام ہے، لیکن اس کا عرفان عام نہیں۔ ماشااللہ! اخگرؔ صاحب کو یہ دولتِ کم یاب بلکہ نایاب حاصل ہے۔خالقِ کائنات نے اُن کی یہ دُعا قُبول فرمالی ہے
-
تُو مُجھے اپنی تمنّا کی عطا کر تَوفیق
اور مِری عرضِ تمنّا کو پَذیرائی دے
اُن کے نعتیہ کلام میں اپنے رَسُول ﷺ کے لیے ایک اُمّتی کی بے پایاں محبّت کے ساتھ شعری مَحاسِن بھی ہمیں اپنی طرف متوجّہ کرتے ہیں۔ بعض نئی تراکیب ایسی خُوبصورتی اور بے ساختگی کے ساتھ اُن کے نعتوں میں سَماگئی ہیں کہ تحسین کے ساتھ حیرت بھی ہوتی ہے
-
اے چَراغِ عزمِ طیبہ مرحبا
راستے روشن نظر آئے بہت
ایسی نئی تراکیب نئے اندازِ نظر، اور طرزِ فکر کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
ان کی نعت گوئی عقیدت کی ایک وسیع دنیا ہے، جس میں ان کے شب و روز حضرت رسالتِ مآب ﷺ کے دوسرے مغنّیوں کے ساتھ گُزر رہے ہیں
-
رَقصاں تھے سبھی رند ، وہ حافظؔ ہوں کہ سعدیؔ
دورِ مئے عرفاں تھا جہاں، میں بھی وہیں تھا
اب نعت و سلام ہی اخگرؔ صاحب کی دُنیا ہے۔ میں بھی اُن کی اِس دُعا پر آمین کہتا ہوں
-
تمام عُمر میں نعت و سلام لکھتا رہوں
تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے
٭
-
Thursday, August 20, 2009
سید محمد ابوالخیر کشفی: کیفِ نعت و سلام [خلق مجسم]
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment