Tuesday, August 25, 2009
جگن ناتھ آزاد: میخانہ ء الہام [خلق مجسم]۔
-
میخانۂ الہام
جب ایک غلام ملک دو آزاد ملکوں کی صورت میں تقسیم ہوا تو دونوں ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان سے بھاری تعداد میں لوگوں نے باہر کے ملکوں کا رُخ کیا، جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، یورپ کے مُمالک اور مغربی ایشیا کے بعض ممالک کے نام سرِ فہرست ہیں۔
ہجرت کرنے والے اس بھاری تعداد کے لوگوں میں اکثریت اُن کی تھی جن کے پیشِ نظر اپنے مُلک کی تہذیب اور کلچر کی خدمت تھی۔ اس خدمت کے کئی ابعاد ہیں۔ جن میں حُبِّ وطن بھی آجاتی ہے، حُبِّ مذہب بھی، حُبِّ انسانیت بھی، اور سماجی اقدار بھی۔ ایسے مُختصر سی تعداد والے تارکینِ وطن کی فہرست کو ہم کتنا ہی مختصر کریں، وہ فہرست سیّد محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کے نام کے بغیر مُکمّل نہیں ہوسکتی۔
اردو اس وقت ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر دنیا کے مُختلف مُمالک میں پہنچ چکی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، روس، جرمنی، سوُئیڈن،ا ور مشرقِ وُسطیٰ کے بعض ممالک میں یہ زبان ایک باوقار مُقام حاصل کرچکی ہے، اور اس کامیابی کا سہرا جن حضرات کے سر ہے، ان میں سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اردو کی خدمت میں دن رات ایک کرتے ہوئے انہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مشاعرے کے بارے میں بعض نقّادوں کی رائے یہ ہے کہ مُشاعرہ اب پایۂ اعتبار سے گر چکا ہے، اور اردو کے فروغ کو یہ اب کوئی فیض نہیں پہنچاسکتا۔ میں اس رائے سے مُتّفق نہیں ہوں۔ بیرونی ملکوں میں اردو کی ہر دلعزیزی نے جو دن دونی اور رات چوگنی ترقِی کی ہے، وہ بڑی حد تک مشاعرے کی بدولت ہوئی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان میں بھی نئی نسل کو اردو سے قریب لانے کے لیے مشاعرے نے جو کام کیا ہے، وہ سیمیناروں اور توسیعی لیکچروں نے نہیں کیا۔ میں تو یہ کہوں گا کہ نئی نسل کے دلوں میں اردو کے لیے مشاعرے نے پچّاسی فیصد [85%] کشش پیدا کی ہے، اور سیمیناروں اور توسیعی لیکچروں نے پندرہ فیصد [15%]۔ باہر کے ملکوں میں مشاعرہ سننے والوں کی تعداد میں جو حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے، اس کے برابر تعداد اردو لیکچروں اور تقریروں میں دیکھنے کے لیے ہمیں ابھی پچّیس [25] سال انتظار کرنا ہوگا۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے عاشقانِ اردو نے باہر ملکوں میں اردو کی مقبولیت کو جس مقام پر پہنچایا ہے، وہ ماورائے تعریف ہے، اور اس پر ایک نہیں متعدد تحقیقی مقالے لکھنے کی ضرورت ہے۔
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نے اس ضمن میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ ان کی صلاحیّتوں کا ایک رُخ ہے۔ اتنا ہی اہم ان کی تخلیقی صلاحیّتوں کا پہلو ہے۔ میں ان کاکلام ایک مُدّت سے ادبی جرائد میں پڑھ رہا ہوں،ا ور 1962ء سے انہیں یورپ، امریکہ، اور پاکستان کے مشاعروں میں بھی سُن رہا ہوں۔ اُن کا کلام رسائل میں پڑھ کے بھی مجھے اس لذّت اندوزی کا احساس ہوتا ہے، جو ان کا کلام مشاعرے میں سن کے۔ بعض حضرات جب مشاعروں میں شعراء کا تعارف کراتے ہیں تو وہ بعض دفعہ شعراء کو دو حصّوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ ایک کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ کتابوں میں چھپنے والے مشاعرے کے شاعر ہیں،یا کتابوں کے شاعر ہیں۔ اور دوسرے کووہ کہتے ہیں کہ یہ مشاعرے کے شاعر ہیں۔ معلوم نہیں اس تقسیم سے وہ کس کو کمتر اور کس کو برتر قرار دیتے ہیں۔ ( غالباً مشاعرے کے شاعر کو وہ کمتر درجے کا شاعر قرار دیتے ہوں گے)۔
لیکن میں اس تقسیم کوصحیح نہیں سمجھتا۔ شعراء بہت اونچے درجےکے بھی ہوتے ہیں، اور کم اونچے درجے کے بھی۔ لیکن اس تصوّر کو صحیح نہیں سمجھتا کہ مشاعرے کے شعراء یا ترنّم سے پڑھنے والے شعراء کسی بھی طرح کم پائے کے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو نواب سائلؔ دہلوی مرحوم، جگرؔ مرادآبادی مرحوم، حفیظؔ جالندھری مرحوم، اور احسانؔ دانش مرحوم کو ہم کس درجے میں رکھیں گے؟ یقیناً یہ شعراء اردو شاعری کی آبرو رہے ہیں، اور علاّمہ اقباؔل ؒ کا ذکر تو میں بھول ہی گیا ہوں۔ انہوں نے اپنی بعض نظمیں انجمنِ حمایت الاسلام کے جلسوں میں ترنّم سے پڑھ کے سامعین کو رُلادیا ہے۔ اور ہاں، مومن خاں مومنؔ کے بارے میں بھی یہی پڑھا ہے کہ وہ کلام ترنّم سے پڑھتے تھے۔ کلام بُلند پایہ، اور دلکش ترنّم سے پڑھا جائے تو اردو شاعری کی دلکشی سامعین کے دل میں بیٹھ جاتی ہے، اور اس طرح سے اردو زبان کو جو باوقار احترام اور پسندیدگی ملتی ہے وہ کسی اور ذریعے سے نہیں مل سکتی۔ میں بڑی آسانی سے حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صاحب کا شمار نواب سائلؔ ، جگرؔ صاحب، حفیظؔ صاحب، اور احسانؔ دانش کے زُمرے میں کرتا ہوں، جنہوں نے اپنے حُسنِ کلام اور ترنّم سے مُشاعروں کے ذریعے بھی اردو شعر و ادب کو چار چاند لگائے ہیں۔
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کے اس سے پہلے کے مجموعۂ کلام پر میں ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔ ہر شاعر کا کلام جہاں مُختلف کیفیتوں کا مجموعہ ہوتا ہے وہاں اس کی اپنی ذات کا بھی آئینہ ہوتا ہے۔ مذکورہ مجموعۂ کلام [ خیاباں] ، ادبی، سماجی، قومی، سیاسی شاعری اور غزلیات پر مشتمل ہے۔ زیرِ نظر مجموعۂ کلام “ خُلقِ مُجسّم” ایک بُلند تر موضوع سے متعلّق ہے، اور وہ موضوع ہے روحانیت اور مذہبیات سے متعلّق، اور اس حسن سے متعلّق جسے ہماری ظاہر کی آنکھیں نہیں، بلکہ باطن کی آنکھیں [ہی] دیکھ سکتی ہیں۔
میں نے زیرِ نظر کتاب پر لکھتے ہوئے حُسن کا ذکر کیا ہے۔ وہ حُسن، جسے ہماری باطنی آنکھیں، ظاہری آنکھوں کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں۔ کائنا ت کو جب ہم حسین کہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ کائنات کا خالق حسین تر ہوگا۔ مجھ ایسے گُناہگار لوگ تو اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن جن بُزرگانِ دین نے اُسے دیکھا ہے انہوں نے کلام پاک کی تقلید میں “نُورالسمٰوات والارض” کہا ہے۔ یہ تشبیہِ تام ہے۔ اب زمین و آسمان کے نُور سے زیادہ اور کیا شے حسین ہوسکتی ہے۔ چنانچہ، اس کی تعریف میں اور اس کے بھیجےہوئے مذہب اور پہُنچی ہوئی شخصیتوں پر قلم اُٹھانے والا شاعر قارئین کےصرف شکریہ ہی کا نہیں، بلکہ دلی مُبارکباد کابھی مُستحق ہے۔
حمد، مُناجات، نعت اور منقبت کے مضامین ہماری اردو اور فارسی شاعری کے محبوب ترین موضوعات ہیں۔ ان موضوعات پر اردو شاعروں نے بِلا امتیازِ مذہب و ملّت قلم اُٹھایا ہے، اور پورے خلوص کے ساتھ۔
میں اپنے اس ابتدائیے میں اب اس موضوع کو نہیں چھیڑوں گا کہ کس کس شاعر نے حمد اور نعت لکھی ہے، کیوں کہ اس سے میں اپنے موضوع سے دور چلا جاؤں گا۔ میں صرف سیّد محمّد حنیف اخگرؔ کی حمدیہ ،نعتیہ، اور منقبتیہ شاعری ہی کا ذکر کروں گا۔
شاعری کا ذکر کرتے ہوئے ارسطو نے بڑی عمدہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بڑے خیال کو ہم جب تک جذبے میں نہ سمو لیں بڑی شاعری معرضِ وجود مِیں نہیں آسکتی۔ اس خیال کو کالرج نے اپنی تحریروں میں تین موقعوں پر دہرایا ہے۔ ارسطو اور کالرج کا کہنا ہے کہ اُصولی طور پر خیال کوئی بھی ہو، فکر کوئی بھی ہو، وہ جب تک جذبے میں تحلیل نہ ہوجائے، جذبے میں سمو نہ لیا جائے، سچّی اور کھری شاعری معرض وجود میں نہیں آسکے گی۔ ارسطو اور کالرج خیال کو جذبے میں سمونے کی بات کررہے ہیں، فکر کو فکرِ محسوس میں تبدیل کرنے کی بات کررہےہیں، خیال یا فکر کو شاعری کا یا موزونیت کا لباس پہنادینے کی بات نہیں کررہے ہیں۔ سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کی شاعری میں اور زیرِ نظر مجموعۂ کلام میں جو اس وقت ایک مُسوّدے کی صورت میں میرے سامنے ہے، یہ خصوصیت مجھے خاص طور سے نظر آئی ہے کہ حنیف اخگرؔ نے فکر اور شعریت کو اس طرح یک جان کردیا ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہاں حمد کے دو ایک اشعار دیکھیے
-
ذرا کرشمۂ قدرت دکھا دیا تونے
تو مُشتِ خاک کو آدم بنادیا تونے
بُلا کے عرش پہ پردہ اٹھا دیا تو نے
خود اپنے جلوے کو جلوہ دکھا دیا تونے
بہ انتہائے کرم آخری کتاب کے ساتھ
نبیؐ کو بھیج کے جینا سکھا دیا تونے
اِس حمد کے دوسرے شعر ہی میں رسولِ اکرمؐ کے سفرِ معراج کا ذکر اِس شاعرانہ خوبصورتی کے ساتھ دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ شاعر نے اس شعر میں ایک جہانِ معنی بند کردیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی دو شانیں ہیں۔ ایک عالمِ لاہوت میں، اور ایک عالمِ ناسوت میں۔ عالمِ لاہوت میں جب اللہ تعالیٰ نے، یا اللہ تعالیٰ کی ذات نے، اپنے آپ کو اپنی صفت کی صورت میں دیکھنا چاہا تو اپنی ذات کی پہلی صفت جو اللہ تعالیٰ کو نظر آئی وہ رسولِ اکرم کی ذات تھی، اور سفرِ معراج کا جب وقت آیا تو رسولِ اکرمؐ کو عالمِ ناسوت میں آئے خاصی مُدّت گُزر چکی تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی صفت سے مُلاقات کررہی تھی، اور درمیان میں فاصلہ قابِ قوسین کا تھا۔
اس شعر کا خاص طور سے ذکر اس لیے نہیں کررہا ہوں کہ یہ شعر قاری کے تصوّر کو روزِ ازل سے رسولِ اکرمؐ کے سفرِ معراج کے وقت تک لے جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں فکر اور جذبہ اس طرح ایک دوسرے سے گھُل مِل جاتے ہیں کہ فکر، فکرِ محسوس بن گیا ہے۔یعنی فکر کو جذبے سے الگ کرکے یا جذبے کو فکر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
نعت کا جہاں تک تعلّق ہے میں نے اپنی زندگی میں اردو اور فارسی کی بہت نعتیں پڑھی ہیں۔ ایسی بھی جو زبانِ زدِ خاص و عام ہوچکی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی بہت اچھی نعتیں کہی جارہی ہیں، لیکن بعض نئی نعتوں میں مجھے ایک بات نظر آرہی ہے جو اگر نہ ہو تو بہتر ہے، اور وہ یہ ہے کہ بعض شعراء جوشِ عقیدت میں نعت کو حمد بنادیتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں حمد اور نعت بہت نازک موضوعات ہیں، بہت نازک تر فنون ہیں۔ ان کو ایک دوسرے میں گُڈ مُڈ نہیں کرنا چاہیے۔ میری مادری زبان اردو نہیں ہے، سرائیکی ہے۔ مُدّت ہوئی جب میں عیسیٰ خیل اور میانوالی میں مُقیم تھا، تو ایک نعت بہت مقبول تھی، جس کے صرف دو مصرعے مجھے یاد ہیں۔ وہ میں نقلِ کُفر ، کُفر نہ باشد، کے طور پر یہاں درج کررہا ہوں:۔
-
احمد تے احد وچ فرق نہ کوئی
ہک نقطے شور مچایا
مُجھے یاد ہے کہ جب ہم( مسلمان اور ہندو کم عمر طالب علم) مل کر یہ گایا کرتے تھے تو بعض مُسلمان بُزرگ ہمیں [اسے] گانے سے روک دیا کرتے تھے۔
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک نعتیہ مشاعرے میں صدرِ مشاعرہ پنڈت ہری چند اخترؔ نے شعراء کو یہ نصیحت کی تھی کہ رسولِ اکرمؐ کے حُسنِ صورت کے ساتھ حُسنِ سیرت کا اور انؐ کے سماجی کارناموں کا ذکر بھی نعت میں لانا ضروری ہے۔
میں نے جناب حنیف اخگرؔ ملیح آبادی کے نعتیہ کلام میں یہ بات دیکھی ہے کہ انہوں نے نعت کو نعت کی حدود کے اندر رکھا ہے، اور حمد کو حمد کی حدود کے اندر۔
-
مُجھے ذوقِ سجدہ ملا تو آپؐ کے نقشِ پا سے ملا مجھے
جو دیا خدا نے دیا، مگر درِ مُصطفےٰ ؐ سے ملا مجھے
سُنِیں برگ و بار کی آہٹیں ،ملیں مہر و ماہ سے رونقیں
مگر ان پہ فکر کا حکمِ رب لبِ مُجتبےٰ ؐ سے ملا مجھے
ہے در اصل حاصلِ زندگی، درِ مُصطفٰے کی گداگری
یہ عظیم منصب بندگی جو ملا، خدا سے ملا مجھے
اِسی طرح کی مُتعدّد مثالیں اس کتاب میں سے پیش کی جاسکتی ہیں
-
تمام حمد ہے اس ربِّ انس و جاں کے لیے
ہر ایک نعت ہے سرکارِ ؐ دوجہاں کے لیے
زمیں پہ ٹاٹ کا بستر تو ہاتھ کا تکیہ
یہ اہتمام تھا آرامِ جسم و جاں کے لیے
اب نعت شریف کا ذکر آگیا تو غالب کی زمین میں بھی اخگرؔ صاحب کی ایک نعت کے چند اشعار دیکھ لیجیے
-
واللہ نکھر جائے مرا حُسنِ بیاں اور
تحسینِ مُحمّد ؐ جو رہے وردِ زباں اور
وہ ختمِ رُسلؐ رشکِ مہ و مہر ہے جس سے
انوارِ الہٰی ہوئے دنیا پہ عیاں اور
گنبد کے تلے محفلِ مہر و مہ و انجم
ہیں شہر مدینہ کے زمیں اور زماں اور
ہر لحظہ ہے آنکھوں سے رواں یادِ مدینہ
اور کیف کا عالم ہے سرِ خلوتِ جاں اور
مثالیں کہاں تک پیش کی جائیں۔ چاہتا تو میں یہ ہوں کہ شاعر اور قاری کے درمیان حائل نہ رہوں، لیکن قلم ہے کہ رُکتا ہی نہیں ہے۔ نئی تشبیہیں، نئے استعاروں اور نئی علامات سے سجایا ہوا مُسوّدے کا ہر صفحہ راقم التحریر کو پڑھنے کی اور مَسحُور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔
اقبالؔ کی شُہرۂ آفاق غزل کی زمین میں
-
مِرا شوقِ نعتِ رسولؐ ہےکبھی سوز میں کبھی ساز میں
کبھی نذر نغمۂ جاں کروں کبھی دل شعورِ نیاز میں
میں تو چند سجدے گزار آیا ہوں، سرزمینِ حجاز میں
ابھی بے حساب تڑپ رہے ہیں، مِری جبینِ نیاز میں
آفرینشِ حضرت علی ابنِ علی طالب کرم اللہ وجہہ کا مطلع دیکھیے، اس میں ایک تاریخی واقعے کو جس کا پس منظر رُوحانیت ہے، اخگرؔ صاحب نے اُسے اسی طرح جذبے میں سمویا ہے کہ تاریخ الگ اور شاعری الگ نظر نہیں آتی ہے، بلکہ تاریخ شعریت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولادت کعبہ شریف میں ہوئی۔ اب اس تاریخی واقعے کے پیشِ نظر یہ مطلع اور شعر دیکھیے گا۔۔
-
وہ جس کے حُکم سے عیسیٰ ہوئے تھے بے پدر پیدا
ابو طالب کا کعبے میں ہوا نورِ نظر پیدا
ہوئے نام خدا پیدا، خدا کے گھر میں تو گویا
“خدئی جگمگا اٹھی، ہوا ایسا قمر پیدا”
رسولِ اکرمؐ نے فرمایاتھا “ میں شہرِ علم ہوں، اور علیؓ اس شہرِ علم کا دروازہ ہیں”۔ اور ویسے بھی جب حضرت علیؓ کا ذکر آتا ہے تو ان کی شہ زوری کے ساتھ ان کے تبحُّرِ علمی کا تصوّر بھی سامنے آجاتا ہے۔ دیکھیے سید حنیف اخگرؔ کے سامنے یہ تصوّر کس انداز سے آتا ہے
-
علیؓ ہیں مظہرِ نورِ خدا، حُسنِ خدائی بھی
کریں ذکر ان کا ہوں گے خود بخود فکر و نظر پیدا
اسی کی دھار نے ہر نغمۂ فتح و ظفر لکھا
جو تیغِ حیدری روکے، نہیں، ایسی سَپر پیدا
بنامِ صدقۂ نامِ علی اللہ کردے گا
مرے عرضِ ہنر میں وُسعتِ فکر و نظر پیدا
آفرینش حضرت امام حُسینؓ کے ذکر میں حنیف اخگرؔ ملیح آبادی نے جو کمالِ فن دکھایا ہے، وہ میرے فکر اور میرے تصوّر کی حُدود سے میلوں آگے نکل گیا ہے۔ مذکورہ نظم چھتّیس[36] اشعار پر مشتمل ہے، اور میرے لیے مُقامِ حیرت یہ ہے کہ چھتّیس مطلعے ہیں،ا ور تمام حُسنِ بیان کے نور سے مُنوّر۔ میرا جی چاہتا ہے کہ نمونے کے طور پر چھتّیس کے چھتّیس مطلعے یہاں درج کردوں۔ لیکن ایک بند کے آخری شعر، اور اس کے بعد کے بند کے چند ابتدائی اشعار پیش کرتا ہوں
-
آئے حُسینؓ شانِ سیادت لیے ہوئے
عشقِ نبیؐ کُلاہِ امامت لیےہوئے
-
سبطِ نبیؐ ، نبیؐ کی شباہت لیے ہوئے
اپنے پدر کی شانِ جلالت لیے ہوئے
چہرے پہ ایک نورِ صداقت لیے ہوئے
ذہنِ رسا میں، گنجِ فراست لیے ہوئے
احیائے دینِ حق کی امانت لیے ہوئے
قسمت میں کربلا کی مُسافت لیے ہوئے
لہجے میں انگبیں کی حلاوت لیے ہوئے
فطرت میں صبر و شکر کی عادت لیے ہوئے
عزمِ نبیؐ ، علی کی شُجاعت لیے ہوئے
عظمت کی ایک ایک علامت لیے ہوئے
-
-
ایماں کی اپنے خوں میں حرارت لیےہوئے
اور اپنے آب و گِل میں امامت لیے ہوئے
میرے نزدیک یہ مجموعۂ کلام اوّل سے آخر تک ایک میخانۂ الہام ہے۔ شاعرانہ محاسن سے لبریز، جس کا بیان یا جس کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں۔ اسے پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ عقیدت شعریت میں ڈھل گئی ہے، یا شعریت عقیدت میں۔ جیسا کہ میں پہلے کہیں لکھ چکا ہوں، اس مجموعۂ کلام میں شاعر کی فکر محسوس بن کر شعریت میں ڈھل گیا ہے۔ آج دنیا بڑی حد تک جس راستے پر چل پڑی[ہے]، اس کے متعلّق کہا جاسکتا ہے:۔
-
ترسم نہ رسی بہ کعبہ اے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است
میرے اسی خیال کے پیشِ نظر اسی شاعری کی دنیا کو ضرورت ہے، جس شاعری پر یہ کتاب مشتمل ہے۔ اس تصنیف پر جہاں میں سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صاحب کو دلی مبارکباد دیتا ہوں۔ وہاں میں اس شعری اضافے پر اردو دنیا کو بھی مُبارکباد دیتا ہوں، کیوں کہ یہ مجموعۂ کلام اسی شاعری پر مشتمل ہے، جس کو روح کی اور دل کی بُلند پایہ
شاعری کہا جاسکتا ہے۔
دہلی، مئی 6, 2002ء
٭
Professor Jagan Nath Azad died in 2002. To read a short biographical essay about him, please click here ...
-
No comments:
Post a Comment