لال قلعے دہلی،کے اردو مشاعرے: روایت و حکایت
سہیل انجم، دہلی، بھارت
اردو مشاعرے ہماری ادبی و تہذیبی روایت کے امین اور ہماری لسانی بیداری کے عکاس ہیں۔ مشاعروں کی ایک الگ تہذیب ہے، ایک الگ رنگ ڈھنگ ہے۔یہ تہذیب ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی زبان اور شعری سرمائے کا تحفظ عزیز ہے تو ہمیں معیاری مشاعروں کے انعقاد اور ان میں شرکت سے گریز نہیں کرنی چاہئے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور تلخ حقیقت ہے کہ اب عوامی مشاعروں کا معیار انتہائی پست ہو تا جا رہا ہے اور ایسے ایسے لوگ بھی شاعر کی حیثیت سے ان میں شرکت کرنے لگے ہیں جو نہ تو اردو زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی شعری روایت سے اور نہ ہی انہیں شاعر ہی کہا جا سکتا ہے۔بہر حال آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں جہاں اردو کے لوگ موجود ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اب توشاعروں کو معقول نذرانے بھی ملنے لگے ہیں اور بعض شاعروں نے مشاعرہ پڑھنے ہی کو اپنا مستقل ذریعہ معاش بنا لیا ہے۔
ہندوستان میں مشاعروں کے انعقاد کی ایک تاریخی روایت موجود ہے۔ہاں، یہ الگ بات ہے کہ آزادی سے قبل یا یوں کہیں کہ مغل دور حکومت میں عوامی مشاعروں کا کوئی رواج نہیں تھا اور صرف خواص کے مشاعرے ہوتے تھے یا شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں جو کسی بڑے آدمی کی حویلی میں منعقد ہوتی تھیں یا پھر لال قلعہ کے دیوان خاص میں شعری نشست ہوتی تھی۔ جس میں بادشاہ اور شاہزادوں کا کلام سنا جاتا تھا۔دہلی میں مشاعروں کی روایت پر گہری نظر رکھنے والے ادیب اور متعدد کتابوں کے مصنف عظیم اختر کے مطابق دہلی میں عوامی مشاعروں کا آغاز 1920ءکے آس پاس ہوا۔ اس سے قبل ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔تقسیم ملک کے خوں چکاں ایام کے بعد جب خاک و خون کا سلسلہ تھما تو مشاعروں کی روایت کو زندہ کرنے کے لیے بعض سرفروش اور اردو کے دیوانے اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس کے لیے مغل دور حکومت کے مرکز لال قلعہ کا انتخاب کیا۔اگر ہم کہیں کہ آزادی کے بعد مشاعروں کی روایت کی تجدید اسی تاریخی مرکز سے ہوئی تو شائد غلط نہیں ہوگا۔
بقول عظیم اختر پہلا' مشاعرہ جشن جمہوریت، فروری 1950ءمیں لال قلعہ کے دیوان خاص میں منعقد کیا گیا تھا اور جو دہلی میں 'مشاعرہ جشن جمہوریت، کی بنیاد بنا۔اس وقت سے لے کر آج تک ہر سال مشاعرہ جشن جمہوریت کا انعقاد ہوتا ہے۔اس تاریخی مشاعرے کا انعقاد اس پرآشوب دور میں دہلی کی سرزمین پر قائم ہونے والی غالباًپہلی اور آخری ادبی تنظیم 'اردو سبھا ،نے کی تھی اور اس کے روح و رواں بھاری بھرکم ادبی شخصیت پنڈت برج موہن دتا تریا کیفی تھے۔اس زمانے میں جبکہ اردو دشمنوں اور فرقہ پرستوں کی جانب سے اردو زبان کو تقسیم ملک کا ذمے دار قرار دیا جا رہا تھا اور کوئی بھی شخص اردو کا نام لینے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا، تب پنڈت دتا تریا کیفی نے اپنے اردو دوستوں کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنا ڈالی تھی۔اس تنظیم کو گوپی ناتھ امن لکھنوی، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر اور گوپال متّل جیسی قد آور شخصیات کا سرگرم اور عملی تعاون حاصل تھا۔اردو سبھا در اصل دیال سنگھ کالج لاہور کے مشہور زمانہ استاد علامہ تاجور نجیب آبادی کے ذہن کی پیداوار تھی۔
بہر حال 1950ءمیں منعقد ہونے والے اس پہلے مشاعرہ جشن جمہوریت میں اس وقت کے جن نابغہ روزگار شعرا نے شرکت کی تھی ان میں استاد بیخود دہلوی، جگر مرادآبادی، مجاز لکھنوی، فراق گورکھپوری، نوح ناروی، ناطق گلاوٹھی،جوش ملیح آبادی، شعری بھوپالی، جوش ملسیانی، بوم میرٹھی، تلوک چند محروم، راز دہلوی، برج موہن دتا تریا کیفی، امن لکھنوی ،انور صابری، عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد، روش صدیقی اور نشور واحدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آزاد ہندوستان کا یہ شاید پہلا مشاعرہ تھا۔ دیوان خاص میں ہونے والا یہ مشاعرہ ریڈیو سے براہ راست نشر کیا گیا اور اسے پورے ملک نے سنا۔
جشن جمہوریت کے اس اولین کامیاب مشاعرے نے دتا تریا کیفی اور ان کے مخلص ساتھیوں کے حوصلے بلند کر دیے اور انھوں نے جشن آزادی کے مشاعرے کا اہتمام کر ڈالا۔یہ مشاعرہ دوشبی تھا اور اس میں بھی ملک بھر کے اہم شعرا نے شرکت کی تھی۔پہلے دن کے مشاعرے کی صدارت علامہ دتا تریا کیفی نے اور دوسرے دن کی صدارت سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی نے کی۔اس مشاعرے میں جوش ملیح آبادی کی ہنگامہ خیز نظم نے مشاعرے کے ماحول کو بدل دیا تھا۔جوشِ بلانوش نے منتظمین مشاعرہ کے اس اعلان کی کھلی خلاف ورزی کی کہ صرف وہی شعرا شرکت کریں گے جو شراب نہ پیتے ہوں۔تاہم جوش ملیح آبادی کو اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔اسی درمیان شہر میں یہ بات گشت کرنے لگی کہ جوش صاحب اس شرط کی پرزور انداز میں مخالفت کرتے ہوئے نظم پڑھیں گے۔یہ مشاعرہ لال قلعہ کے دیوان عام میں منعقد کیا گیا اور مشاعرہ گاہ کو اس کے شایان شان دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔دیوان عام میں بچھی سنگ مرمر کی چوکی ناظم مشاعرہ کے لیے مخصوص کر دی گئی۔ شائقین کا زبردست ازدحام تھا اور ایک بڑا طبقہ جوش کی پرجوش نظم سننے کے لیے آیا تھا۔
اس دو شبی مشاعرہ کی پہلی شب انتہائی کامیاب رہی۔ اسی لیے جو لوگ اس شب نہیں پہنچ سکے تھے دوسری شب وہ بھی چلے آئے۔مشاعرہ شروع ہوا اور کافی رات تک چلتا رہا۔ عظیم اختر اپنے والد اور ادیب و شاعر مولانا علیم مظفر نگری کی قلمی یادداشتوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ادھر مشاعرہ شروع ہوا اور ادھر جوش صاحب اسٹیج سے اٹھ اٹھ کر جھاڑیوں میں جاتے اور اپنا موڈ بنا کے آتے۔بہر حال جوش صاحب کا نمبر آیا۔ انھوں نے سامعین پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور نظم سنانے سے قبل ایک تمہیدی تقریر کر دی جس میں انھوں نے مولانا احمد سعید دہلوی جیسے مذہبی لوگوں پر طنز و تشنیع کے تیر چلائے۔انھوں نے جو نظم سنائی تھی وہ ان کے مجموعہ کلام 'سموم و صبا' میں موجود ہے۔اس پر ایک نوٹ بھی درج ہے جس میں انھوں نے علما کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ہے اور گوپال متل اور بسمل شاہجہاں پوری پر رکیک حملے کیےہیں۔بہر حال اس نظم کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں:
جو دل میں بات ہے کھل کر اسے بیاں کر دوں
اگر خفا نہ ہوں بندے سے مصلحان کرام
مشاعرے نہیں ہوتے ہیں دین کے پابند
کہ شاعروں کو نہیں فرصتِ درود و سلام
نہ یہ کتھا کی سبھا ہے نہ محفل میلاد
نہ آستانہٴ رحمان ہے نہ منزلِ رام
مشاعروں کا نہ بھولے سے اہتمام کریں
مناظروں کے اکھاڑوں کے رستم و بہرام
رخِ کلام پہ غازہ ملیں نہ تقوے کا
ادب کے منہ میں لگائیں نہ بندگی کی لگام
ازل سے دین و ادب میں رہی ہے جنگِ عظیم
حلال دین میں جو شے ہے وہ ادب میں حرام
وہاں درود و مناجات ہے، یہاں ہذیان
وہاں جو نعرہ صلوٰة ہے یہاں دشنام
مشاعروں میں تقاضائے اتقا کیا خوب
مشاعرہ شبِ آدینہ ہے نہ ماہ صیام
دیار کعبہ و کاشی کے گھومنے والے
بساط ِشعر و ادب پر کریں نہ مشق خرام
ادب ادب ہے ادب کا نہیں کوئی مذہب
خدا کے فضل سے یہ کفر ہے نہ یہ اسلام
سخن کو طول نہ دو جوش مختصر کہہ دو
اگر یہی ہے روش تو مشاعروں کو سلام
اس نظم پر زبردست ہنگامہ ہوا شور بلند ہوا اور داد بھی خوب ملی۔منتظمین مشاعرہ نے اس خوف سے کہ کہیں مشاعرہ ہنگامے کی نذر نہ ہو جائے انتہائی صبرو تحمل سے کام لیا اور ناظم مشاعرہ نے بسمل شاہجہاں پوری کو زحمت سخن دی۔وہ پٹھان آدمی ،غصے سے کانپتے ہوئے مائک پر آئے اور غضبناک تیور اور گرج دار آواز میں یہ شعر پڑھا:
جورند ِبد کلا م اخلاق کی حد سے گزر جائے
نکلوا دو اسے اردو سبھا کی پاک محفل سے
اس شعر پر داد و تحسین کا وہ شور مچا کہ در و دیوار ہل گئے۔ بسمل بار بار یہی شعر پڑھتے اور لوگ اچھل اچھل کر داد دیتے۔بہر حال جوش جیسے عالی ظرف سے یہ توہین برداشت نہیں ہوئی اور وہ ناراض ہو کر مشاعرے سے چل دیے۔ اس کے بعد گوپال متّل آئے اور انھوں نے ایک مختصر تقریر کے بعد جونظم سنائی اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
وطن میں ہو اگر عیش و مسرت کی فراوانی
مجھے کیا گر کوئی لطف مےِ گلفام لیتا ہے
مگر جب قوم کے ہاتھوں میں کاسہ ہو گدائی کا
کوئی خوددار اپنے ہاتھ میں کب جام لیتا ہے
کمر بستہ وطن ہو جب پئے تکمیل آزادی
وہ بے غیرت ہے جو ساقی کا دامن تھام لیتا ہے
شراب ناب کیسی شیر مادر بھی حرام اس پر
جو ایسے وقت میں بادہ کشی کا نام لیتا ہے
بہر حال یہ دوشبی مشاعرہ انتہائی کامیاب رہا اور ریڈیو پر براہ راست پورے ملک میں سنا گیا۔ غیر حاضرلوگوں نے بھی اس ادبی و شعری معرکے کو ریڈیو سے سنا اور محظوظ ہوئے۔مشاعرے کے بعد بھی اس معرکے کے اثرات قائم رہے اور جوش ملیح آبادی نے 'عقیدت کی موت' کے عنوان سے ایک نظم لکھ کر گوپی ناتھ امن سے اپنے تمام تر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے۔ فریق مخالف نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اس طرح یہ ادبی معرکہ ایک غیر مہذب ادبی معرکہ بن کر رہ گیا۔
پنڈت دتا تریا کیفی، گوپی ناتھ امن، کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر، مولانا احمد سعید اور دوسرے اردو دوستوں نے لال قلعہ کے دیوان عام میں مشاعرہ جشن جمہوریت اور جشن آزادی کے انعقاد سے جو بنیاد ڈالی تھی وہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کے بعد سے مسلسل ہر سال'مشاعرہ جشن جمہوریت' کا انعقاد ہوتا ہے۔درمیان میں چند سال یہ مشاعرہ لال قلعہ میں نہ ہوکر کبھی ایوان غالب، کبھی تال کٹورہ اسٹیڈیم اور کبھی اندرپرستھ اسٹیڈیم میں منعقد ہوا۔ لیکن بہر حال اب پھر یہ مشاعرہ لال قلعہ کی زینت بن رہا ہے۔
البتہ یہ لال قلعہ کے دیوان خاص یا دیوان عام کی بجائے لال قلعہ کے لاہوری دروازے کے پاس اور فصیل کے زیر سایہ میدان میں ہوتا ہے جو پہلے فٹبال گراوٴنڈ تھا۔1978ءسے1982ء تک مشاعرہ کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر رہے۔
عظیم اختر کے مطابق پہلے اس مشاعرے کا اہتمام و انصرام مرکزی حکومت کیا کرتی تھی۔ 1978ءمیں اس نے اس کا انتظام دہلی حکومت کے حوالے کر دیا اور اس سال مشاعرے کا انعقاد ساہتیہ کلا پریشد کے بینر سے کیا گیا۔جس میں کنور مہیندر سنگھ بیدی اور ساغر نظامی وغیرہ نے شرکت کی تھی ۔لیکن 1982ء میں دہلی اردو اکیڈمی کے قیام کے بعد سے اس کا انتظام اکیڈمی ہی کرتی ہے۔ پہلے یہ مشاعرہ لال قلعہ کے دیوان عام میں ہوتا تھا لیکن بعد میں حکومت نے لال قلعہ کے اندر فوج کے ایک دفتر کے قیام اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے لال قلعہ کے اندر مشاعرے کے انعقاد پر پابندی لگا رکھی ہے جس کو اٹھانے کا مطالبہ کبھی کبھار کیا جاتا ہے۔ اس مشاعرے میں ملک بھر کے شعرا شرکت کرتے ہیں۔پہلے اس میں کلام سنانا کسی بھی شاعر کے لیے معراج تصور کیا جاتا تھا لیکن اب اس کا معیار اس قدر پست ہو تا جا رہا ہے کہ وہ شعرا بھی اس مشاعرے میں پڑھ لیتے ہیں جن کو عام نشستوں میں بھی لوگ سننا گوارہ نہ کریں۔
تاہم اب بھی اس کی ایک اہمیت ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اس کے کارڈ چھپتے ہیں۔ یہ کارڈ مشاعرے کی تاریخ سے بہت پہلے چھپ جاتے ہیں اور درجنوں مقامات سے تقسیم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اردو اکیڈمی کی جانب سے مختلف جگہوں سے لوگوں کو مشاعرہ گاہ تک لانے اور شائقین مشاعرہ کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اکیڈمی کی جانب سے بسوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔عام لوگوں کے علاوہ خواص کی بھی بڑی تعداد اس میں شرکت کرتی ہے جن میں معزز وزرا اور ممبران پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی بھی ہوتے ہیں۔ بڑی تعداد میں ادب نواز غیر مسلم اور سرکاری افسران کی بھی شرکت ہوتی ہے۔دہلی کے لیفٹننٹ گورنر اور وزیر اعلی بھی اس میں شرکت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔تمام بڑے اور قد آور شعرا مل کر مشاعرے کی شمع روشن کرتے ہیں اور اگر وزیر اعلیٰ کی شرکت نہیں ہو سکی ہے تو حکومت کا کوئی وزیر مشاعرے کی صدارت کرتا ہے۔
اس بار 16 جنوری کو منعقدہ اس مشاعرے کی صدارت دہلی کے وزیر صنعت و خوراک ہارون یوسف نے کی اور انھوں نے جنگ آزادی میں اردو کے رول پر اظہار خیال کیا۔اردو اکیڈمی کے وائس چئیر مین پروفیسر قمر رئیس نے مہمانوں کا استقبال کیا اور لال قلہ کے اس تاریخی مشاعرے کی روایت پر روشنی ڈالی۔مشاعرے میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بے شمار شائقین کو فرش پر بیٹھ کر اپنے جوش و جذبے کی تسکین کا سامان کرنا پڑا۔مشاعرے کی نظامت بین الاقوامی شہرت کے ناظم ملک زادہ منظور احمد نے کی۔قارئین کی دلچسپی کے لیے چند شعرا کا کلام بطور نمونہ پیش ہے:
اک نظر اس کو دیکھو تو معلوم ہو
عمر بھر چاہئیے اک نظر کے لیے
گلزار دہلوی
حالات نے سنائے کچھ ایسے بھی فیصلے
لوگوں کو بے قصور بھی ملتی رہی سزا
مخمور سعیدی
دن کی ضرور ہو گی مگر رات کی کہاں
سورج چراغ جیسی تری روشنی کہاں
وسیم بریلوی
اس دشتِ پر سراب میں بھٹکوں کہاں کہاں
زنجیر آگہی مرے پیروں میں ڈال دے
ملک زادہ منظور احمد
دل میں ہیں اب بھی شیش محل کی سجاوٹیں
باہر سے دیکھیئے تو کھنڈر ہو گئے ہیں ہم
معراج فیض آبادی
ہماری بے رخی کی دین ہے بازار کی رونق
اگر ہم میں وفا ہوتی تو یہ کوٹھا نہیں ہوتا
منور رانا
ستم گروں کا یہ فرمان گھر بھی جائے گا
اگر میں جھوٹ نہ بولوں تو سر بھی جائے گا
منظر بھوپالی
وفاداری نبھانے میں اداکاری نہیں کرتا
وہ احمق ہے جو غداروں سے غداری نہیں کرتا
سنیل کمار تنگ
میں شہر میں کس شخص کو جینے کی دعا دوں
جینا بھی تو سب کے لیے اچھا نہیں ہوتا
فرحت احساس
آئینہ ہے عجیب نہ چہرہ عجیب ہے
بس تیرے دیکھنے کا طریقہ عجیب ہے
الطاف ضیا
ان کے علاوہ بھی درجنوں مقامی اور بیرونی شعرا نے لوگوں کو اپنے کلام سے محظوظ کیا۔
٭
No comments:
Post a Comment