چہرہ برنگ و نورِ حیا سرخ تھا مگر
اظہارِ شوق پر وہ برافروختہ نہ تھا
کچھ بھی جو ساری عمر کا اندوختہ نہ تھا
میّت پہ کون تھا جو برافروختہ نہ تھا
یادش بخیر مدرسۂ عشاق کا نصاب
ہر دن نیا سبق تھا کچھ آموختہ نہ تھا
چہرہ برنگ و نورِ حیا سرخ تھا مگر
اظہارِ شوق پر وہ برافروختہ نہ تھا
اڑ کر قفس سمیت نہ جانے کہاں گیا
پر سوختہ وہ بلبلِ دل سوختہ نہ تھا
اخگرؔ خیالِ ترکِ محبّت سے پیشتر
آنکھیں تو خُشک تھیں مرا دل سوختہ نہ تھا
٭
No comments:
Post a Comment