خیالِ عظمتِ جامِ و سبو تھا
بوقتِ مے کشی میں با وضو تھا
سحر دم خواب میں ساقی کو دیکھا
وہ میرے روبرو، میں قبلہ رو تھا
ہمیں دیکھو اسے چاہا ہے ہم نے
کہ جس ظالم کا چرچا کُو بہ کوُ تھا
جسے سمجھی تھی دنیا رقصِ بسمل
وہ اعلانِ شکستِ آرزو تھا
نگاہوں سے کیا اقبال اخگرؔ
خموشی کیا تھی جرمِ گفتگو تھا
٭
No comments:
Post a Comment