یہی جنوں کا مطالبہ ہے، یہی تقاضا ہے بے خودی کا
میں تشنہ رہ کر ہی تشنگی سے علاج کرتا ہوں تشنگی کا
ہمیں ہے منظور ہر عنایت، ہمیں گوارا ہے ہر ملامت
وہ زخم دیں ہم کو یا تبسّم، کہ یہ ہے سودا ہنسی خوشی کا
بحدِ امکاں مری طرف سے، کمی محبّت میں کچھ نہیں ہے
مگر تمنّا ہے مجھ سے کرتے، کبھی وہ شکوہ کسی کمی کا
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوانِ رنگ و بو میں
ہیں جمع سب مہروماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
عجب تناسب ہے یہ کہ اپنے ہزار آنسو اُبل پڑے ہیں
کبھی جو بھُولے سے آگیا اِک خیال دل میں کسی خوشی کا
حسین صُورت ہمیں ہمیشہ حسیں ہی معلوم کیوں نہ ہوتی
حسین انداز دلنوازی، حسین تر ناز برہمی کا
حیا سے شوخی کے پیرہن میں ہزار ہا رنگ ہیں نُمایاں
نہ گُل نہ بُوٹا قبائے گل میں، بس ایک عالم ہے سادگی کا
یہ آسرا بھی بہت ہے اخگرؔ کہ وہ بالآخر وفا کریں گے
نفس نفس ہے قضا کی زد پر، کوئی بھروسا ہے زندگی کا
٭
No comments:
Post a Comment