گل کاری ء دل دید کے قابل ہی نہیں ہے
گُل کاریِ دل، دید کے قابل ہی نہیں ہے
اشکوں میں ابھی خون تو شامل ہی نہیں ہے
اک آبلہ ہے سینے میں اب دل ہی نہیں ہے
یا سوزشِ غم ضبط کے قابل ہی نہیں ہے
ممکن ہے کسی موجِ بلا سے ہو برآمد
تاحدِّ نظر تو کوئی ساحل ہی نہیں ہے
غافل ہو تو فرمائیں وہ یاد آنے کی زحمت
دل یاد سے ان کی کبھی غافل ہی نہیں ہے
آسودۂ گرداب نہ سمجھو مجھے یارو
اب تک مجھے اندازۂ ساحل ہی نہیں ہے
پابندیِ آدابِ جنوں اُٹھ گئی شاید
زندان میں کوئی شورِ سلاسل ہی نہیں ہے
مائل بہ ستم ہو کبھی مائل بہ کرم ہو
یہ کیا کہ مری سمت وہ مائل ہی نہیں ہے
طوُفان میں جس کے لیے رقصاں ہے سفینہ
وہ بہرِ تماشا سرِ ساحل ہی نہیں ہے
دل ترکِ تمنّا پہ بھی مائل نہیں اخگرؔ
اور عرضِ تمنّا کا تو قائل ہی نہیں ہے
No comments:
Post a Comment