سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی
کچھ یادیں، کچھ باتیں
نیویارک: اگست 1989ء
معبودِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے اپنے محبوب سرورِ کونین ﷺ کی رحمتوں کے صدقے میں مجھے ایک اسلامی گھرانے میں 3 ستمبر 1928 کو اپنے وجود کی آنکھ کھولنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میرا عہدِ طفلی ملیح آباد اور بھوپال کی فضاؤں میں گزرا۔
میرے والدِ محترم قاضی سیّد محمّد شریف اثر، بے حد ذہین، فاضل، اور متدیّن انسان تھے۔ میری والدہ محترمہ رضی النساء نہایت پاک نہاد، پڑھی لکھی اور اُجلی سیرت رکھنے والی عبادت گزار خاتون تھیں۔ ان دونوں برگزیدہ ہستیوں کے سائے میں مجھے تربیت حاصل کرنے اور پروان چڑھنے کے ناقابلِ فراموش لمحات میسّر آئے۔ اور انہی دونوں کی محبّت آمیز قیادت اور دلی دُعاؤں کے نتیجہِ میں مجھے زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے، حصولِ علم کی راہوں پر چلنے، اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے جدوجہد کا ادراک و عرفان ہوا۔ میرے ان دونوں بزرگوں نے اگرچہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں کوئی ڈگری حاصل نہیں کی تھی، مگر اردو، فارسی، اور عربی کی بنیادی تعلیم کی بدولت اپنی جگہ بحرالعلوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ میں نے ان سے ان زبانوں کے حصول کا بڑی حد تک فیض اٹھایا۔ میں آج جو کچھ ہوں، یہ سب انہی کے فیضِ تربیت اور دعاؤں کے طفیل ہے۔
میں نے اردو اور انگریزی مڈل تک کے امتحانات ملیح آباد کے مدرسوں سے پاس کیے۔ چونکہ قصبہ ملیح آباد میں کوئی اسکول نہ تھا، اس لیے مجھے مزید تعلیم کے لیے بھوپال بھیجا گیا۔ جہاں سلیمانیہ کالج سے منشی فاضل کا کورس مُکمّل کرنا تھا۔ مگر والدہ محترمہ کی علالت کے باعث امتحان دیے بغیر ہی واپس ہونا پڑا۔
پھر 1945 ء میں امیرالدولہ اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔ جہاں سے مارچ 1948 ء میں ہائی اسکول کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کامیابی پر مجھے کوئی مُسرّت نہ ہوئی، کہ اس سے تین ماہ قبل میری عظیم ماں [ جو اس عالمِ آب و گِل میں میری سب سے گراں بہا اور عزیز ترین متاعِ حیات تھیں] مُجھ سے ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئی تھیں۔ ان کی رحلت کے بعد گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے میرے لیے ملازمت کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔بہر حال، مجھے سول سکریٹریٹ لکھنئو میں فنانس ڈیپارٹمنٹ میں آسانی کے ساتھ لوُور ڈویژن اسسٹنٹ کی جگہ مل گئی۔ جون 21, 1950 کو میری شادی ہوئی، اور ذمّہ داریوں میں ایک اور اضافہ ہوگیا۔ یہ ملازمت نومبر 1950 تک جاری رہی۔ پاکستان کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ بہتر مستقبل کی خاطر دسمبر 29, 1950 کو خاندان سمیت کراچی آگیا۔ اور جنوری 4, 1951 کو گرینڈلیز بنک لمیٹڈ میں کلرک کی حیثیت سے ملازم ہوگیا۔ لیکن والدہ مرحومہ کی اس ہدایت کے مطابق کہ” تعلیم کا سلسلہ کسی حال میں منقطع نہ ہونے پائے”، اور محترم ابّا میاں کی اس تاکید کی تعمیل میں کہ “سلسلہء تعلیم بہر حال جاری رکھو”، نائٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ دن کو ملازمت اور رات کو تعلیم کا مشغلہ جاری رہا۔ اس تعلیمی جدوجہد کےنتیجہ میں اردو کالج کراچی سے بی کام کیا۔ پھر ایس ایم لاء کالج کراچی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی کے “انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن” سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ بینک میں بہتر سے بہتر مستقبل کے حصول کی غرض سے 'انسٹیٹیوٹ آف بینکرس” کے بھی دو امتحان پاس کرکے ڈپلومہ حاصل کرلیا۔1959 میں چارٹرڈ بینک سے مُجھ کو تین سال کے واسطے لندن جاکر ٹریننگ حاصل کرنے کا آفرملا، جس سے میں والدِ محترم کی علالت کے سبب استفادہ نہ کرسکا۔ پھر میں نے پاکستان انڈسٹریل کریڈٹ اینڈ انوسٹمنٹ کارپوریشن سے وابستگی اختیار کی، اور 1962ء میں مجھ کو کولمبو پلان کے تحت ایک خصوصی کورس کے لیے لندن بھیج دیا گیا۔ وہاں لندن اسکول آف اکنامکس، یونیورسٹی آف لندن سے انڈسٹریل فنانسنگ کے کورس کی تکمیل کی۔ 1966ء میں جب انوسٹمنٹ کارپوریشن آف پاکستان [آئی سی پی] کی تشکیل عمل میں آئی تو مُجھے پکک سے مستعار لے لیا گیا۔ 1969ء میں مجھ کو نیویارک اسٹاک ایکسچینج آپریشن ٹریننگ کے لیے یو-ایس-اے-آئی-ڈی کے پروگرام کے تحت بھیجا گیا۔ آئ سی پی میں میں نے ڈپٹی چیف آف آپریشن اور برانچ منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعدِ ازاں جنوری 13, 1973ء کو میرا تقرّر اقوامِ متحدہ کے ترقّیاتی پروگرام [یو این ڈی پی] کے ادارے میں سینیئر انوسٹمنٹ فنانس آفیسر کی حیثیت سے ہوگیا۔ اور میں نیویارک آگیا۔ جنوری 1975ء میں خصوصی ترقّی کے بعد مارچ 1976ء میں میرا تقرّر ڈپٹی ریجنل ری پریزینٹیٹیو برائے بحرین، قطر، سلطنتِ اومان، یو اے ای اور سعودیہ عربیہ ہوگیا، اور مجھ کو ریاض میں تعینات کیا گیا۔ جون 1980ء میں میرا تبادلہ یو این کیپیٹل ڈیویلپمنٹ فنڈ نیویارک ہوگیا، اور مجھ کو ایشیا پے سی فِک لاٹن امریکہ اور مڈل ایسٹ کا ڈویژن چیف بنادیا گیا۔ یکم جنوری 1984ء کو مجھے ڈائریکٹر کے عہدہ پر ترقّی دے دی گئی، اور مئی 2, 1989ء کو میں بخیر وخوبی یو این کی ملازمت سے سبکدوش ہوگیا۔
میری رفیقہء حیات سعیدہ خاتون کا تعلّق آسیون ضلع اناؤ کے ایک مُعزّ ز اور علم دوست گھرانے سے ہے۔ 1950ء سے تادمِ تحریر وہ صحیح معنوں میں میری رفیقِ زندگی ہیں اور دُکھ سُکھ کے ہر موڑ پر مجھے ان کا تعاون حاصل رہا ہے۔ ان کے بطن سے ماشااللہ ہماری گیارہ اولادیں ہیں۔ چار بیٹے، اور سات بیٹیاں۔ جن میں سے ایک بیٹے اور چار بیٹیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ بقیہ بچّے ہمارے ساتھ ہیں۔ اور اپنے اپنے تعلیمی مشن میں منہمک ہیں۔ سعیدہ خاتون نے میرے والدِ محترم اور دوسرے تمام اہلِ خاندان کی جو خدمت کی ہے اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ ان کا تعاون، میرے والدین کی دعائیں، اور میرے چھوٹے بھائی بہنوں کی میرے ساتھ والہانہ محبّت اور اولاد کی فرماں برداری وہ نعمتیں ہیں جن کے لیے میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ یہ تو تھے میرے مختصر حالاتِ زندگی۔
جہاں تک میرے شعری ذوق کا تعلّق ہے اس میں بھی میرے والدین خصوصاً میری امّی مرحومہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں بچپن ہی سے خوش آواز تھا۔ وہ مجھ سے محسن کاکوروی اور امیر مینائی کی نعتیں پڑھوا پڑھوا کر بڑے ذوق و شوق سے سنتی تھیں۔ اور اس وقت ان کا چہرہ اور ان کی نم آنکھیں حُبِّ ختمی مرتبت ﷺ کی مکمّل ترجمان ہوتی تھیں۔ اور مجھ کو کچھ ایسے شاباش دیا کرتی تھیں کہ میری روح خوش ہوجایا کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ مجھے خود شعر کہنے کا تھوڑا بہت شعور آگیا۔ اس شعور کی بدولت باقاعدہ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پھر جب میں نے امیرالدولہ اسلامیہ کالج لکھنئو میں داخلہ لیا تو وہاں کی ادبی و شعری فضا نے بڑی حد تک میری رہنمائی کی۔ اپنے کالج میں اکثر و بیشتر طرحی مشاعروں کا دور چلتا ۔ میں بھی ان میں شاعر کی حیثیت سے شریک ہوتا، اور اکثر انعامات بھی حاصل کرتا۔
۔1945ء سے 1947ء تک کا دور شعری اور ادبی سرگرمیوں کا بڑا تاریخی دور تھا۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی مہم بڑے زور و شور سے جاری تھی۔ اور دن رات لکھنئو کے نوجوان شعراء کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ میرا قیام مستقل نواب راحت سعید خان آف چھتاری کے بنگلہِ میں تھا۔ جہاں آئے دن شعر و ادب کی محفلیں جمتی تھیں۔ بلاشبہ، لکھنئو کا یہ ماحول میرے لیے استاد کا کردار ادا کررہا تھا۔ اُس وقت لکھنؤ کے نوجوان غزل کہنے والوں میں شاعرؔ لکھنوی کے جدید رنگِ تغزّل کا بڑا شہُرہ تھا۔ اور گلی کوُچوں میں اُن کی وہ غزل گونج رہی تھی جس کی ردیف آنسو تھی۔ اُس کا ایک شعر ذہن میں ہے:۔
کردیا دل کو ترے درد نے نازک ایسا
سانس بھی لی تو نکل آئے ہمارے آنسو
میں شاعرؔ صاحب کو مشاعروں میں سُننے ضرور جاتا، مگر اُن کی نازک طبعی کی داستانیں سُن سُن کر ان سے کبھی ملاقات کی جراءت نہ ہوئی۔ اُس وقت چھوٹوں کا بڑوں کو داد دینا، اور ان سے بے تکلّفی سے پیش آنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا تھا۔ البتّہ اپنے اشعار کو اُن کے طرزِ اظہار کی کسوٹی پر پرکھنےکی تمنّا مجھے شدّت کے ساتھ تھی۔ اپنے یہ احساسات شاعرؔ صاحب پر ظاہر کرنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار تھا۔ جو مجھ میں نہ تھا۔ مگر اُن کی غزل میرے لیے معیار کی حیثیت ضرور رکھتی تھی۔
شاعرؔ صاحب سے میری ملاقات غالباً 1964ء 1965ء کی بات ہے۔ اس وقت ان کا شمار پاکستان کے ممتاز غزل کہنے والوں میں ہوتا تھا۔ اس ملاقات میں اخلاص اور محبّت کی جو بلندی میں نے شاعرؔ صاحب میں محسوس کی اُس سے ظاہر ہوا کہ اُن کے غرورِ شاعرانہ اور نزاکتِ مزاج کی وہ تمام داستانیں جو لکھنئو میں اُس وقت مشہور تھیں، حقیقت سے بہت دور تھیں۔
۔1983ء اور پھر 1985ء میں دو ملاقاتوں کے دوران انہوں نے میرے مجموعہء غزل کے بارے میں استفسار کیا۔ اس وقت تک میں نے اپنی شاعری کے بارے میں کوئی تصوّر قائم کیا تھا، نہ مجموعے کی ترتیب و اشاعت کے سلسلے میں کچھ سوچا تھا۔ مگر جب نومبر 1987ء کے آخر میں جناب شاعرؔ لکھنوی حلقہ ء فن و ادب شمالی امریکہ کی دعوت پر نیویارک تشریف لائے اور پھر میرے مجموعہء غزل “چراغاں” کے مُسوّدہ کا بغور مطالعہ کرکے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تو میری ہمّت بندھی۔ مزید، سونے پر سہُاگہ یہ ہوا کہ جب اراکینِ حلقہء فن و ادب شمالی امریکہ کو مجموعے کے سلسلے میں میرے عزم کی سُن گُن ملی تو اُن سب کا متّفقہ طور پر مطالبہ تھا کہ اس مجموعے کو حلقہِ کی طرف سے شائع ہونا چاہیے۔ مجھے سَپر ڈالنے کے سِوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ یہ شعری مجموعہ حلقہء فن و ادب شمالی امریکہ کے زیرِ اہتمام “چراغاں” کے نام سے سامنے آیا ہے۔ یہ پہلا شعری مجموعہ ہے جو اس حلقہِ کے حوالے سے شائع ہورہا ہے۔ حلقے کےاس اقدام سے امریکہ میں اردو کے شعراء و ادباء کی کتابوں کی طباعت و اشاعت کے امکانات روشن ہوگئے ہیں، جو میرے نزدیک بڑی خوش آئند بات ہے۔
میں نے ملیح آباد، بھوپال، اور لکھنئو میں دورانِ تعلیم جن جن اساتذہ سے ذہنی تربیت اور فکری روشنی حاصل کی ان کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ میں اُن تمام صاحبانِ بصیرت اور اربابِ دانش کا مجموعی طور سے شکر گزار ہوں جن سے زندگی کے سفر میں مجھے روشنی ملی۔
میں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم اُن دوستوں، ادبی حلقوں کے نمائندوں اپنے بزرگوں اور ساتھیوں کا ممنون ہوں جو اردو شعر و ادب کی خدمت میں میرے شانہ بشانہ رہے، اور ہر موقع پر میرے لیے ہمدردی اور تحمّل کا روّیہ رکھا۔
میں جناب سیّد ابوالخیر کشفی، صدر شعبہء اردو، کراچی یونیورسٹی کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں، جنہوں نے “چراغاں” پر اپنے بیش قیمت خیالات سے مجھے نوازا۔ میں جناب پروفیسر شورؔ، اور جناب سحرؔ انصاری کا بھی ممنونِ ہوں کہ انہوں نے میرےکلام پر اظہارِ خیال کی زحمت گوارا فرمائی۔
میں جناب پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں، جنہوں نے بڑے خلوص کے ساتھ “چراغاں” کے لیے اپنے تأثّرات قلمبند کیے اور مجھ ناچیز کی عزّت افزائی فرمائی۔
حضرت شاعرؔ لکھنوی کا نام دنیائے ادب میں کسی تعارّف کا محتاج نہیں، ان کی شخصیت اِس دور میں اردو غزل کی آبرو کی ضامن ہے۔ “چراغاں” کی ترتیب اور تدوین کے ہر مرحلے پر میں نے اُن کے گرانقدر مشوروں سے روشنی حاصل کی ہے۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ اگر اس سلسلے میں مجھے اُن کی رہنمائی نصیب نہ ہوتی تو شاید “چراغاں” ایک مجموعے کی صورت میں کبھی عالمِ وجود میں نہ آسکتا۔ مجھے اُن کے خصوصی شکریے کے لیے وہ الفاظ میسّر نہیں آرہے ہیں جو میری دلی عقیدت کی بھرپور ترجمانی کرسکیں۔
۔“چراغاں” کے پہلے ایڈیشن [1989]کا ٹائیٹل بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ برادرم انجم ایاز صاحب، فرزند جناب نظر امروہوی کی مہارت کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے میرے ذہنی تصوّر کو کاغذ پر مُجسّم کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں خوش رکھے، اور اُن کی شہرت میں چار چاند لگائے۔ دوسرے ایڈیشن [1992]کا نیا سرورق جو عزیزم پروفیسر اوج کمال کی فکر انگیز جدّت اور حُسن کار جناب رشید مرحوم کے ہُنر کا آئینہ دار ہے نے اس کتاب کو اور بھی دیدہ زیب اور معنی آفریں بنادیا ہے۔
میں نے اپنے عظیم والدین سے اخلاق، رواداری، انسانیت، حق شناسی، اور حق گوئی کا ورثہ حاصل کیا ہے، اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی دُعائیں میرے شاملِ حال رہی ہیں۔ اگرچہ وہ اب اس دنیائے آب و گِل میں موجود نہیں، لیکن ان کی دعاؤں کے الفاظ میرے سماعت میں اب بھی گُونج رہے ہیں۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
میں اپنے اس ناچیز مجموعے “چراغاں” کو انہی دونوں شخصیتوں کے نام سے منسوب کرنے کا شرف حاصل کررہا ہوں۔
* * *
No comments:
Post a Comment