سید محمد حنیف اخگر ملیح آبادی ۔۔ رہگزار غزل - صبروشکرکے نادر امتزاج کا حامل مجموعہ غزلیات منیف اشعر ملیح آبادی
سیّد محمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صبروشکر کے نادر امتزاج کا حامل مجموعٔہ غزلیاتِ منیف اشعؔر ملیح آبادی |
اعلیٰ معیار کی شاعری کے بنیادی فنّی لوازمات مِیں پاکیزگیء خیال، فصاحتِ زبان، اور مُترنّم الفاظ کا دروبست شامل ہوتے ہیں۔ اور مہارتِ فن۔۔ مطالعہ کی وسعت، مشاہدات کے ادراک، اور واقعات کے احساس کے ساتھ ساتھ، علمِ عروض، علمِ بیان اور علمِ صنائع و بدائع کے اکتساب بہ کمال عرق ریزی کے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شاعر کی ذہنی طہارت اور فکری ارتقاء پر اس تربیت اور ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے، جس میں اس کی ابتدائی تعلیم اور بالخصوص تربیت ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہوں کہ بفضلِ ربیّ منیف اشعؔر کو بہترین ماحول اور تربیت کا انعامِ خاص ان کے اور میرے والدِ محترم جناب قاضی سیّد محمّد شریف اثرؔ مرحوم کی لامحدود اور بے لوث محبّت کے سائے میں نصیب ہوا۔ اور ان دعاؤں کی فہرست اگر بنانا ممکن ہو تو اس میں ان کی ساری کامیابیوں کا گوشوارہ بھی اس فہرست کے ایک حصّہِ کی صورت میں یقیناً شامل ہوگا۔ جہاں تک منیف اشعؔر کی شاعری کے محاسن کا تعلّق ہے ان کے دونوں سابقہ مجموعوں 'تلخ و شیریں' اور 'رختِ زندگی' کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہائش پذیر دنیائے ادب کے ممتاز ترین صاحبانِ علم ودانش اور معتبر سخنورانِ کرام، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر آفاق صدّیقی، جناب محسن بھوپالی، محترم مشفق خواجہ، پروفیسر جاذب قریشی، جناب راغب مرادآبادی، ڈاکٹر فہیم اعظمی، اور پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ،اور شمالی امریکہ میں مقیم صاحبانِ علم و فن ۔۔۔ سابقہ سفیرِ پاکستان کرامت اللہ غوری صاحب، جناب افتخار حیدر، محترمہ نزہت صدّیقی صاحبہ، اور محترمہ عابدہ کرامت صاحبہ نے نہایت وقیع اور حوصلہ افزا تقاریظ سے مُزیّن و باوقار کردیا ہے۔ میں ان تقاریظ کو پڑھ کر بے حد مسرور ہوا۔ اور منیف اشعؔرکو ان اعزازاتِ تحسین پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ۔'رہگزارِ غزل' کی غزلیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے بعد صرف دو باتوں پر مشتمل اس مجموعہِ کے متعلّق اپنے تأثرات بھی لکھنے کی مُسرّت حاصل کررہا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ اس مجموعہِ میں شامل غزلیات میں جابہ جا مدحتِ رسولﷺ کی سعادت اور دوسرے ایک نوجوان ولدِ صالح کی حادثاتی شہادت کا دکھ، منیف اشعؔر کے بیشتر اشعار میں چھلکا پڑتا ہے۔ اور ایسے بے شمار اشعار اس مجموعٔہ کلام میں ہیں، جنہیں پڑھ کر قاری بعض اوقات اپنے ذاتی دُکھ کی تجدید کی وجہ سے، اور بعض اوقات منیف اشعؔر کے شعورِ اظہارِ غم و جُرأت صبر پر آنکھوں سے داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ میں یہاں اَن گِنَت ایسے اشعار نقل کرسکتا ہوں، لیکن طوالتِ مضمون کی بدعت کا ارتکاب نہ کرتے ہوئے صرف چند اشعار پر اکتفا کررہا ہوں:۔ برائے نعتِ نبی حَرف مل ہی جاتے تمام قلم بھی کاش مرے ساتھ باوضو ہوتا ٭ بس آپ کی رفعت سے ملی ہے یہ بصارت افلاک پہ توقیرِ بشر دیکھ رہا ہوں ٭ سوئے مدینہ جھکے سرلیے بہ شکلِ فقیر اُٹھائے دستِ صبا تاج ور بھی جاتے ہیں نبیء اُمّی کا در ہی وہ مدرسہ ہے جہاں سنورنے سیکھنے علم و ہنربھی جاتے ہیں ٭ ہمارے دل میں تو آقا کی رحمتوں کے طفیل نجات کی ہیں اُمّیدیں یقیں سے وابستہ ٭ برس رہا تھا جو نعلینِ پا سے گلیوں میں نظّارہ ہائے مدینہ اُسی جمال کے ہیں ٭ رہِ خدا بھی مدینہِ سے ہوکے جاتی ہے کہ جستجوئے خدا بھی ہے جستجوئے نبی ٭ ملا ہے اے مرے لختِ جگر دل کو اچانک یہ زخمِ دائمی تیری حیاتِ عارضی سے ٭ نہ تتلیاں نہ بہاریں نہ رنگ و بو، اشعؔر لحد پہ کہتا ہے جاکر، بس ایک تُو ہوتا ٭ ترے دکھ پر نہ ہوتی آنکھ نم کیا رُلا دیتا ہے پتّھر کو ، تو ،ہم کیا درمیاں لاکھ میں دیوارِ تبسّم رکھ دوں درد کا پھر بھی ہے رشتہ، دلِ صدچاک کے ساتھ کہتے ہو مجھ سے وہ لَوٹ آئے گا اک دن اشعؔر کیوں ہنسی کرتے ہو آخر، دلِ غمناک کے ساتھ ٭ دور نہ کیوں ہوجاتا آخر میری آنکھوں سے جس کومیرے دل میں دھڑکنا اچھا لگتاہے ٭ آہ و فغاں فضول ہے، اشعؔر یقین کر اچھا لگے ہے درد کو پنہاں کیے ہوئے ٭ دُکھ تیرا بڑا ہے، مگر اشعؔر یہ ذرا دیکھ جو صبر کا احسان ہے، وہ کتنا بڑا ہے ٭ ہمیں ہمارے والدین مرحومین نے یہ ہدایت ذہن نشین کرادی تھی کہ ہمیں اپنی زندگی کو دوحصّوں میں اس اعتبار سے تقسیم کرنا چاہیے کہ جو کچھ ربّ العزّت نے عطا کیا ہے، اس پر اس کا ہمیشہ شکر ادا کریں۔ اور دوسرا حصّہ صبر کا، کہ وہ جو کچھ ہمیں ہماری خواہش کے مطابق نہ عطا کیا گیا، یا جو کچھ دے کے واپس لے لیا گیا، اس پر صبر کریں۔ الحمدللہ! منیف اشعؔر والدین کے اس درس کو ذہن نشین کئے ہوئے ہیں، اور اس پر عمل پیرا ہیں۔ سچّی شاعری کو یقیناً وہ پذیرائی ضرور نصیب ہوتی ہے، جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ اور مجھ کو امّید بلکہ یقین ہے کہ انشااللہ 'رہگزارِ غزل' کو اردو ادب میں وہ مقام ضرور ملے گا، جس کا یہ مجموعہ مستحق ہے۔ مجموعہ کی پیشانی حمدونعت اور سلام جیسی اصنافِ سُخن سے جگمگارہی ہے۔ اور بقیہ کلام، جو بنیادی طور پر غزلوں ہی پر مشتمل ہے، اس بات پر دال ہے کہ غزل کا دامن اس قدر وسیع ہے کہ وہ اندوہ و غم اور زندگی کے تمام دیگر افکارومسائل کو سمیٹ سکتا ہے۔ میں اپنےدل کی گہرائیوں سے منیف اشعؔر کے حق میں دنیا اور عقبیٰ کی ساری بہبودیوں بشمول کمالِ پذیرائی کلام، اور صحتِ مُستمرّہ کے لیے دعاؤں کے ساتھ ایک بار پھر اُن کو اُن کے اس ہرطرح سے مُزّین اور خوبصورت مجموعٔہ کلام پر ارمغانِ تہنّیت پیش کرتا ہوں۔ دعاجو، اور دعاگو سیّدمحمّد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی صدر حلقۂ فن و ادب شمالی امریکہ، انکارپوریٹڈ 10 November 2008 |
No comments:
Post a Comment